گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رضائی کا موسم ۔
ڈیرہ میں آجکل سردی کے صرف ڈھائی تین مہینے رہ گیے ہیں حالانکہ ماضی میں چھ مہینے سردی پڑتی تھی۔ اور جنوری کا سارا مہینہ بارش ہوتی اس لیے جنوری میں نہریں بند کی جاتی تھیں۔سردی کا موسم رضائی کا موسم بھی کہلاتا کیونکہ یہ یہاں کا پسندیدہ موسم تھا ۔ ہم کمرے میں چولھے کے ارد گرد پھوڑیوں کی پتھاریوں پر آگ سینکتے تھے۔ شادی کے پروگرام بھی زیادہ اسی رُت میں ہوتے اور دلھن کے لیے طرح طرح کے ریشمی اور سوتی کپڑوں کی رضائیاں بنائی جاتیں ۔اس میں پانچ چھ سیر کپاس ڈالی جاتی ۔کپاس کی دھنائی مشین پر ہوتی اور سلائی کا کام گھر کی عورتیں یا کاریگر مرد کرتے۔ ہماریے گھروں میں رنگ برنگے کپڑوں کو ٹک کر ایک رضائی بنتی جسے رلی کہتے ۔یہ سندھ میں زیادہ بنائی جاتی تھی ۔عام طور پر درزی سے کپڑوں کے چھوٹے ٹکڑے جمع کر کے رلی بنائی جاتی تھی۔پھر ڈبل بیڈ کے لیے رضایاں بننے لگیں۔ اسی طرح گدے بھی بنائے جاتے تھے۔ پھر کمبل اور فوم کا رواج آیا مگر جو مزہ رضائی میں ہے وہ کمبل اور فوم میں نہیں ۔میں تو اب بھی کپاس کے گدے اور رضائی پسند کرتا ہوں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ