رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریباً سو دن پہلے کی بات ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے اپنی اور حلیف ممالک کی فوجوں کا انخلا مکمل کیا۔ طالبان دیگر شہرں پر اپنی فتح کا جھنڈا لہراتے ہوئے کابل میں داخل ہو چکے تھے۔ یہان بیس سال قبل جنگی گھن گرج کے ساتھ آنے کی دھج کچھ اور تھی جبکہ واپسی کے مناظر انتہائی بھیانک۔ طالبان اور ان کے افغانستان اور دوسرے ممالک میں موجود حامی جشن منا رہے تھے۔
ارد گرد کے اکثر ممالک‘ ہمارے سمیت خوش نظر آ رہے تھے کہ دہشت گردی کی جنگ کا ہولناک باب ختم ہو چکا۔ واقعی گزشتہ کئی مہینوں سے افغانستان میں امن اور سکون تو ہے مگر بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔ ایک تو سابق لیڈر ملکی زر و دولت سمیٹ کر ساتھ لے گئے۔ ان کو حالات کا ادراک تھا۔ قریب سے دیکھ رہے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔
اس لیے خزانے کی صفائی پہلے سے ہی شروع کر رکھی تھی۔ دوسرے امریکہ نے تقریباً نو دس ارب ڈالرز اپنے بینکوں میں منجمد کر دیئے۔ اس کے ساتھ عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں نے افغانستان کو رقوم کی فراہمی بند کر دی۔ پابندیاں اس کے علاوہ ہیں۔ سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کر کے قانونی جائزیت کی سند عطا نہیں کی۔ ان کی حکومت ہے‘ ریاست پر کنٹرول ہے‘ امن و سلامتی پہلے سے بہتر ہے‘ مگر امریکی پابندیوں نے افغانستان کی حیثیت کو پگھلا کر رکھ دیا ہے۔
امریکہ اور اس کی سرپرستی میں چلنے والے عالمی نظام کا جبر ہے کہ ہم چاہتے ہوئے بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ افغانوں کی اس مصیبت کی گھڑی میں ہم ہی ان کا ساتھ دے رہے ہیں‘ اور اس سے بڑھ کر ہمیں ان کی اعانت کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں اس وقت سیاست‘ ریاست اور علاقائی سلامتی کے تقاضوں نے انسانی المیے کو پیدا کر دیا ہے۔
عالمی ادارے‘ جو اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے خوراک اور صحت کا سامان فراہم کرتے ہیں‘ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں‘ خصوصاً بچے اور عورتیں غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی درخواست پر فقط چند سو ملین ڈالرز کی امداد کے کچھ ممالک نے وعدے کیے ہیں‘ مگر رقوم کی ترسیل سست روی کا شکار ہے۔ سردی کے اس موسم میں لاکھوں افغان‘ جو جنگ سے بے گھر ہوئے تھے‘ اور اب بھی خیمہ بستیوں میں مقیم ہیں‘ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کہاں ہیں وہ ہمارے مسلم ممالک کے درمیان بھائی چارے کے دعوے دار اور خصوصاً وہ جنہوں نے سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کی جنگ میں کئی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی تھی۔ اس وقت بھی امریکہ سے ہم آہنگ تھے اور آج بھی اسی سے قدم ملا کر چلتے ہیں‘ احتراماً کچھ قدم پیچھے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کا تیل سے کمایا ہوا سرمایہ مغربی ممالک کی معیشتوں کو بوقت ضرورت سہارا دینے کے لیے تو مہیا کیا جاتا ہے‘ مگر افغان بھوکوں مریں‘ تو اس خوف سے کہ کہیں امریکہ ناراض نہ ہو جائے‘ چپ سادھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ شروع میں یہ بھی غلغلہ تھا کہ افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک مل کر فیصلہ کریں گے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے اور اگر انہوں نے ایسا کر لیا تو کچھ اور ممالک بھی سفارتی تعلقات قائم کر لیں گے۔ کچھ یہ بھی امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ چین اور روس پہل کاری کریں گے اور طالبان کی امداد کے لیے پہنچ جائیں گے۔ وہ بھی کچھ میٹھی باتیں کر کے خاموش ہو گئے۔
عالمی نظام تو نہیں بدلے گا‘ نہ موجودہ دور کی طاقت کا توازن۔ آپ مانیں یا نہ مانیں سکہ امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں کا چلتا ہے۔ طاقت صرف فوجی نہیں‘ اس کے سرچشمے علمی میدان میں ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں‘ تحقیق اور جانکاری میں سرمایہ کاری میں اور ہردم بدلتی صنعتوں اور نئے اقتصادی رنگوں میں ہیں۔ وہاں اس وقت سب سے زیادہ سرمایہ کاری گرین ٹیکنالوجی میں ہو رہی ہے۔
وہ دیکھتے ہی دیکھتے آئندہ چند دہائیوں میں بہت کچھ تبدیل کرکے رکھ دیں گے۔ وہاں نظام چلتا ہے کہ چلانے والے بھی ماہر اور ایمان دار اور عوام بھی با شعور ہیں‘ آزاد خیال اور سوال کرنے والے۔ ہمارے ہاں صرف نعرے بلند آواز میں لگانے کا رواج ہے‘ اس لیے کہ جن کا ہمارے جیسے ممالک کی ریاست اور حکمرانی پر قبضہ ہے‘ وہ لوٹ مار‘ دھوکہ دہی اور جھوٹ بولنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ عوام میں ایسے نظریات پروان چڑھائے جاتے ہیں کہ کل اُٹھ کر ساری دنیا کا مقابلہ کریں گے۔ اپنی محتاجی دیکھی نہیں کہ ہم اپنی معیشت کو تھوڑا سا سہارا دینے کے لیے ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی طرف کس تیزی سے دوڑ کر جاتے ہیں۔ بات یہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ حکومتیں اور ریاستیں ایک عالمی نظام کی طے کردہ حدود کے اندر کام کرتی ہیں۔
کچھ بنیادی اصولوں‘ روایات اور طرزِ حکمرانی کے انداز اپنانے پڑتے ہیں۔ اپنے ہی مفادات کا تقاضا ہے کہ ایسا کیا جائے۔ ان میں انسانی حقوق‘ خصوصاً عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کا لحاظ‘ بنیادی انسانی آزادیاں‘ ظلم و ناانصافی سے حفاظت اور انسانی اقدار کی پاسداری جیسے اصول شامل ہیں۔ اندرونی استحکام‘ امن اور سلامتی کے بغیر بھلا کوئی ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے؟
ترقی تو کجا وہ لوگوں کی روزمرہ کی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکے گا۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ دنیا کے ساتھ جڑیں گے تو تجارت‘ لین دین کر سکیں گے۔ سرمایہ کاری ہو گی تو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ نظام سے تنہا ہو جانے یا کر دیئے جانے والے ممالک کا حال آپ کے سامنے ہے۔ ان میں چند اس بات پر مُصر ہیں کہ جو کچھ اپنے ملک میں کر رہے ہیں‘ یہ ان کا پیدائشی حق ہے۔ یہ بطور ریاست درست ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ آپ طاقت ور اور غالب ممالک کی طرف سے آنے والے رد عمل کے سامنے ٹھہر بھی سکتے ہیں یا نہیں اور کیا اس کی قیمت چکانے کے لیے آپ تیار ہیں؟
افغانستان تو بے چارہ غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے اور یہاں چالیس سال سے زائد عرصہ میں جنگیں ہی ہوتی رہی ہیں۔ فعال ریاست‘ ادارے اور معیشت کبھی خود انحصار نہ بن سکے۔ امریکہ اور اس کے حلیفوں نے بہت سرمایہ کاری کی‘ بہت کچھ افغانستان میں بیس سال کے اندر بنا بھی ہے‘ مگر اس کو چلانے اور معیشت کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے طالبان کو عصری تقاضوں کو تسلیم کرنا ہو گا۔ ریاستیں عملیت پسندی اور حقیقت پسندی سے چلتی ہیں۔ مراکش سے لے کر ملائیشیا تک کتنے مسلم ممالک ہیں۔ ان کی معاشرت اور طرزِ حکمرانی سے ہی طالبان کچھ ادھار لے لیں۔
ان ممالک میں ہر جگہ بچیوں کی تعلیم پر کوئی پابندی نہیں‘ حکومتیں نظریات سے زیادہ قومی مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتی ہیں۔ افغانستان خود گزشتہ بیس سالوں میں تبدیل ہوا ہے۔ ایک نئی نسل پروان چڑھی ہے۔ جدت پسندی پیدا ہوئی ہے۔ اب خوف اور کڑی سزائوں کے ذریعے حکومتیں کرنے کا وقت ختم ہو چکا ہے‘ اور یہ بھی ممکن نہیں کہ صرف ایک دھڑا بندوق کے زور پر حکومت کرے۔ طالبان کو اپنی بقا‘ افغانستان کی سلامتی‘ اور اپنے عوام کو فاقوں اور بیروزگاری کی دلدل سے نکالنے کے لیے دنیا کے ساتھ چلنا ہو گا۔ بات چیت کا راستہ اختیار کرنا ہو گا اور بے جا پابندیاں عائد کرنے سے بچنا ہو گا۔ زمانہ بدل چکا ہے‘ طالبان کو بھی بدلنا ہو گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ