نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یونین کونسل نمبر 1 خانیوال پی پی پی کے امیدوار حلقہ 206 کا دورہ||عامر حسینی

ان ادوار میں ہزاروں سرکاری نوکریاں انھیں ملیں لیکن پرانا خانیوال کے نوجوانوں کو چند سو نوکریاں بھی نہ دے سکے؟ کیوں؟ کیا پرانا خانیوال کے غریب نوجوان اُن کی رعایا ہیں؟ کیا یہ جدید دور کے غلام ہیں جن کی معاشی خود مختاری جائز نہیں ہے؟

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

……………….
گورنمنٹ مڈل اسکول برائے بوائز پرانا خانیوال
گورنمنٹ ماڈل انگلش مڈل اسکول فار گرلز پرانا خانیوال
1985ء میں یہ اسکول نوابزادہ عبدالرزاق نیازی ممبر صوبائی اسمبلی نے منظور کرائے تھے اور ان کے لیے زمین کی منظوری چیئرمین بلدیہ صوفی عبدالحق رضوی مرحوم کی کوششوں سے ملی – تب سے لیکر اب تک ان اسکولوں کو اَپ گریڈ نہیں کرایا جاسکا –
پرانا خانیوال میں پاکستان بننے سے پہلے ایک پرائمری اسکول بنا جو آج بھی پرائمری اسکول ہے –
اس علاقے میں موجودہ ایم این اے محمد خان ڈاہا کا گھر ہے جو تیسری بار رُکن قومی اسمبلی بنے ہیں – جبکہ اُن کے والد حاجی عرفان خان ڈاہا 1988ء سے لیکر 1997ء تک چار بار رُکن صوبائی اسمبلی بنے اور چوتھی مرتبہ صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ بھی رہے –
مرحوم نشاط احمد خان ڈاہا اسی یونین کونسل میں رہائش پذیر تھے جن کی جگہ اب اُن کی بیوہ الیکشن لڑ رہی ہے – وہ 2008ء، 2013ء اور 2018ء میں تین بار رُکن صوبائی اسمبلی بنے – اُن کے بھائی 2002ء میں رُکن صوبائی اسمبلی بنے اور وہ خود اس زمانے میں تحصیل ناظم تھے – نشاط ڈاہا تینوں برسراقتدار پارٹی کے ساتھ رہے
اس علاقے میں یہ دو مڈل اسکولز اور ایک پرائمری اسکول اَپ گریڈ نہ ہوسکے –
پرانا خانیوال کا علاقہ جو بااثر سیاسی خانوادے ڈاہا کے زیر اثر رہا پسماندگی کا نمونہ ہے اس علاقے کی جو واحد دو گلیوں میں میٹل روڈ ہے اُن میں ایک گلی سیدھی سابق رکن صوبائی اسمبلی نشاط ڈاہا مرحوم کے گھر تک جاتی ہے اور دوسری گلی میں ایم این اے نواز لیگ محمد خان ڈاہا و سابق صوبائی وزیر عرفان ڈاہا کے گھر تلک جاتی ہے- باقی سب گلیاں یا کچی ہیں یا پرانا سولنگ لگا ہوا ہے – اور کئی گلیوں میں سیوریج سسٹم بھی نہیں ہے نہ سرکاری واٹر سپلائی ہے –
اس حلقے کے نوجوان قاضی معظم کی قیادت میں متحد ہوئے اور انھوں نے پہلی بار ذہانت سے اپنے مقامی جاگیر دار گھرانے کی شکست کا سامان مہیا کیا – اور مدمقابل جو ھراج گروپ تھا اُسے پہلی بار سیکٹروں کی تعداد میں حمایت کرنے والے لوگ میسر آگئے لیکن پی ٹی آئی نے تین سال میں اس علاقے میں تعلیم، صحت اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے کچھ نہ کیا- نہ ہی یہاں واقع تین اسکولو ں کو اَپ گریڈ کیا- نہ ہی بے روزگاری روکنے کی کوشش کی گئی ہے –
اس علاقے کے باشعور نوجوان گڈ گورننس کی دعوے دار مسلم لیگ نواز اور تبدیلی کی علمبردار تحریک انصاف کے امیدواروں سے یہی سوال کررہے ہیں کہ وہ کس بنیاد پہ اُن سے ووٹ مانگنے آئے ہیں؟
ہم نے ان نوجوانوں سے کہا کہ وہ پی ٹی آئی کی امیدوار نورین نشاط ڈاہا سے یہ سوال ضرور کریں کہ اُن کے مرحوم شوہر نے مسلم لیگ نواز کے دو حکومتی ادوار اور بزدار کے تین سالہ دور میں حکومتی اقتدار کا مزا لیا لیکن 13 سالوں میں وہ تین اسکولوں کو نہ تو اَپ گریڈ کرواسکے، نہ ہی اس علاقے کا انفرا سٹرکچر ٹھیک کراسکے اور یہی سوال مسلم لیگ نواز کے امیدوار سے کریں کہ 1988ء سے 1990ء، 1997ء کے تین ادوار اور پھر 2008ء سے 2018 تک اُن کی پانچ بار حکومتیں رہیں لیکن وہ ان اسکولوں کو اپ گریڈ کیوں نہ کراسکے؟
ان ادوار میں ہزاروں سرکاری نوکریاں انھیں ملیں لیکن پرانا خانیوال کے نوجوانوں کو چند سو نوکریاں بھی نہ دے سکے؟ کیوں؟ کیا پرانا خانیوال کے غریب نوجوان اُن کی رعایا ہیں؟ کیا یہ جدید دور کے غلام ہیں جن کی معاشی خود مختاری جائز نہیں ہے؟
اگر ضمنی الیکشن کا اعلان ہوتے ہی پرانی تاریخوں میں کسی برادری کے ووٹ لینے کے لیے اُس برادری کے پٹواری، قانون گو کے ٹرانسفر لیٹر تیار ہوسکتے ہیں تو پرانی تاریخ میں ان اسکولوں کی اَپ گریڈیشن نہیں ہوسکتی؟ اس علاقے کے نوجوانوں کو سرکاری محکموں میں ڈیلی ویج ملازم کیوں نہیں رکھا جاسکتا؟ اگر بلدیہ کے ایک چیئرمین کا نجی باڈی گارڈ، خانساماں اور کئی ایک سپورٹر بلدیہ کے گھوسٹ ڈیلی ویج ملازم ہوکر ہر مہینہ 17 ہزار روپے لے سکتے ہیں تو اس علاقے کے حقیقی محنت کش نوجوانوں کو ڈیلی ویج بھرتی کیوں نہیں کیا جاسکتا؟
پی پی پی کے امیدوار صوبائی اسمبلی میر واثق سرجیس ترمذی اور ان کے ساتھیوں نے یہی سوالات پرانا خانیوال کے ووٹرز کے سامنے رکھے اور اُن سے یہ بھی سوال کیا کہ ان تین سالوں میں تاریخی مہنگائی کی لہر کے دوران اُن کی مشکلات دور کرنے کہیں صوبائی حکومت یا وفاقی حکومت کے اہلکار اُن کی مدد کو پہنچے تھے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو 16 دسمبر کو نواز لیگ اور پی ٹی آئی کو مسترد کریں مہر تیر کے نشان پہ لگائیں…

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author