سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ میری تاحیات نااہلی کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ 5سال جیل کاٹ کر واپس آتے ہیں اور الیکشن لڑتے ہیں۔ جہانگیر ترین کا سپریم کورٹ سے تاحیات نااہلی کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ موجودہ حالات و واقعات کے تناظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب ایک سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ طور پر جاری ہونے والی آڈیو کے بعد پاکستانی سیاست میں جو ہنگامہ خیزی برپا ہے اس کےبعد اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آنے والے دنوں میں مزید ویڈیوز اور آڈیوز آنے کی توقع کی جارہی ہے یعنی مستقبل قریب میں سیاست کا میدان مزید گرم رہے گا۔ اس دھماچوکڑی میں ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس دوڑ میں نمبر لینے کی دوڑ میں لی ہوئی ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں ویڈیوز اور آڈیوز کی سیاست کوئی نئی بات نہیں لیکن اس مرتبہ معاملہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان کا ہے کہ ان کے نام سے مبینہ طور پر ایک آڈیو منسوب کی جارہی ہے جس میں نوازشریف اور ان کی بیٹی کو سزا دیئے جانے کی بات کی جارہی ہے۔ اگرچہ سابق جج نے اس کو غلط قرار دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب وہ صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح کرکے بڑی آسانی کے ساتھ دکھاسکتی ہے۔ اب یہ آڈیو سائنس کی ’’کرامات‘‘ ہیں یا کچھ اور ہیں اس بارے میں ابھی کچھ کہنا غلط ہے تاہم اگر یہ کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا لگاکر بنائی گئی ہے تو بنانے والا شاباش کا مستحق اس لئے ہے کہ اس نے اتنی محنت کی۔ ویسے یہاں وکلاء برادری کا دہرا معیار بھی افسوسناک ہے کہ ایک معاملے پر آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں دوسرے معاملے پر خاموش تماشائی کا سا کردارادا کررہے ہیں۔ ان حالات میں اگر جہانگیر ترین اپنی نااہلی کی سزا بارے نظرثانی کا مطالبہ کررہے ہیں تو بعض حلقوں میں یہ بھی ببانگ دہل کہا جارہا ہے کہ اگر نوازشریف اور مریم کی سزائوں کو معاف کروانے یا کالعدم کروانے کی بات کی جاسکتی ہے تو ایسے میں جہانگیر ترین نے تو صرف تاحیات نااہلی کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ ہی کیاہے جس پر عدالت کو ہمدردانہ طور پر ہی غور کرنا چاہیے کیونکہ ماضی میں زیادہ سیاستدانوں کی 5سے 7سال تک کی نااہلی کی سزا سنائی جاتی رہی ہے۔ جہانگیر ترین کی نااہلی کوآئینی ماہرین نے بڑا سخت فیصلہ قرار دیا تھا جبکہ اپوزیشن نے اسے عمران کو بچانے کے لئے ترین کی قربانی سے منسوب کیا تھا۔ تاہم جہاں تک سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ رانا شمیم کا بیان حلفی، ثاقب نثار کی آواز، دونوں کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے، بالکل درست ہے کیونکہ ان معاملات کا تعلق براہ راست عدلیہ کے ساتھ ہے اس لئے اس معاملے کی تحقیقات ہونا بے حد ضروری اس لئے بھی ہے کہ اس مرتبہ عدلیہ جیسے بڑے ادارے کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ ہماری عدلیہ جو بلاخوف و خطر آئین کی سربلندی کے لئے کوشاں ہے اسے اس نازک وقت میں ٹارگٹ بنانے کا مقصد دبائو میں لاکر فیصلوں پر اثرانداز ہونا بھی ہوسکتا ہے۔
اگرچہ ہمارے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں بلکہ ماضی میں بھی ایسا کیا جاتا رہا۔ بلاشبہ اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کا مقصد ان کی کارکردگی پر اثرانداز ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پاکستان مخالف چونکہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اگر اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو اس سے وطن عزیز کو دنیا بھر میں بدنام کرنے میں آسانی ہوجائے گی اور یوں وہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ادھر یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ ہمارے ہاں اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے اولوں کے خلاف چونکہ کبھی تگڑی کارروائی نہیں ہوئی اسی لئے تو ہر دور میں میر جعفر اور میر صادق ملک دشمنوں کو بآسانی مل جاتے ہیں۔ آج اگر وطن عزیز کو کوئی سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہاہے تو وہ پاکستان ہی ہے جس کو ہر روز اتنے کٹ لگائے جاتے ہیں کہ اب تو لہو لہو میرا وطن بھی اپنی حالت پر ماتم کناں ہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ مافیا مرضی کے فیصلے کروانے کے حوالے سے ایک تاریخ رکھتا ہے جو غلط نہیں۔ اداروں کے خلاف منظم انداز میں پروپیگنڈہ کروانا (ن) لیگ کا خاصہ رہا ہے تاہم ایسے میں یہ مطالبہ بالکل درست ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) سمجھتی ہے کہ جج ارشد ملک اور سابق چیف جسٹس ثاقب ثنار کی مبینہ آڈیو درست ہیں تو عدالت کو درخواست دے کر انہیں مقدمات کے ریکارڈ کا حصہ بنائے کیونکہ ایسے معاملات میڈیا میں لاکر ان کا ٹرائل کرنا درست نہیں بلکہ مزید خراب ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان کی یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیاہے کہ یہاں پر عدالتی ٹرائل سے زیادہ میڈیا ٹرائل پر ہی توجہ مرکوز کی جاتی ہے جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے اور آج ہماری عدالتوں سے سائیکل چوری کا مقدمہ میں سزا پانے والا 16سال بعد ضمانت پاتا ہے تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
فوج اور عدلیہ پاکستان کے دو مضبوط ستون ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے ان قابل احترام اداروں کے بارے میں جو زبان استعمال کی جارہی ہے اس کے باوجود آئین و قانون کا حرکت میں نہ آنا انتہائی تشویشناک ہے جس سے قانون کا دہرا معیار قائم ہونے کا تاثر تقویت پکڑ رہا ہے۔ دراصل یہی وہ غلطی ہے جس کا خمیازہ وطن عزیز کو بھگتنا پڑتا ہے کہ اب تو عالمی رپورٹس میں بھی پاکستانک و قانون کی عملداری کرنے والے 139ممالک کی فہرست میں 130ویں نمبر پر رکھا جاتا ہے۔ پاکستان بارے یہ تاثر کوئی ایسے ہی قائم نہیں ہوا بلکہ عدالتوں میں عرصہ دراز سے التوا میں پڑے مقدمات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں یہی نہیں بلکہ ایک غریب شخص، اس کی بیٹی جھوٹے مقدمات میں طویل عرصے تک ضمانت نہیں حاصل کرپائے جبکہ دوسری طرف مریم نواز سزا یافتہ ہونے کے با وجود عرصہ دراز سے ضمانت پر ہیں۔ وہ جس طرح اداروں کو بدترین تنقید کا نشانہ بناتی ہیں وہ قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے مگر مجال ہے کہ قانون کبھی اس حوالے سے حرکت میں آئے۔ دراصل یہی وہ امتیازی سلوک ہے کہ جب تک اس کا وطن عزیز سے خاتمہ نہیں کیا جاتاملک میں قانون کی عملداری ممکن نہیں۔
یہ قانون پر عملداری نہ کرنے کا نتیجہ ہی تو ہے کہ کرپشن کے آئے روز نت نئے ریکارڈ بن رہے ہیں اور عوام کے گلے میں قرضوں کا طوق دھڑا دھڑ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود ڈالا جارہاہے کہ اب عوام کی مہنگائی برداشت کرنے کی بس ہوگئی ہے اور ادھر ہماری حکومت نے عوام کو ہر ماہ بجلی، گیس، پٹرولیم مہنگی کرنے کی خوشخبری سناکر تو جیتے جی ہی ماردیا ہے۔ مشیر خزانہ شوکت ترین نے آنے والے دنوں میں مزید مہنگائی کی بھی نوید سنادی ہے۔ ادھر حماد اظہر گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ کے حوالے سے فرمارہے ہیں کہ اس کی قلت نہیں بلکہ کھپت میں اضافہ ہوا ہے۔ حماد اظہر ایک نوجوان اور پڑھے لکھے سیاستدان ہیں اس قسم کے بیوقوفانہ بیانات کی عوام کو ہرگز توقع نہیں ہے اس لئے حکومتی عہدیداران کو عوام سے کچھ چھپانے کی بجائے انہیں سب سچ سچ بتادینا چاہیے۔ ایک طرف عمران خان کی طرف سے عوام کے غم میں ہلکان ہوئے جانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو دوسری طرف پنجاب اسمبلی ارکان کے الائونسز میں اضافے کی قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ہے یعنی جب عوام کے خون پسینے کی کمائی پر ہاتھ صاف کرنا ہو تو پی ٹی آئی اور (ن) لیگ دوست بن جاتے ہیں جبکہ عوامی معاملات پر بدترین دشمن بنے نظر آتے ہیں۔
یہ حکومت کا دوہرا معیار نہیں تو اور کیاہے کہ ایک طرف وزیراعظم عوام کے ٹیکسوں میں اضافے کی قومی اہمیت اور کفایت شعاری کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اراکین اسمبلی کے الائونسز میں اضافے کا بل متفقہ طور پر منظور کرواکر قوم پر مزید بوجھ لادا جارہاہے جو عوام سے صریحاً زیادتی ہے۔ ان حالات میں تمام سیاستدان بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہے ہیں تو اگر جہانگیر ترین بھی تاحیات نااہلی پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں تو اس میں کیا بڑی قباحت ہے اور اگر اس فیصلے کے بدلے وہ اپنی شوگر ملوں جوکہ ملک کی مجموعی چینی کا 22فیصد پیدا کرتی ہیں، سے چینی کی قیمتوں میں 15سے 20سال تک قیمت مقرر کرنے کا معاہدہ بھی کرلیا جاتا ہے تو کوئی گھاٹے کا سودا نہیں لیکن اس سے عوام کو تو کچھ ریلیف مل ہی جائے گا کیونکہ نہ لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی اور نہ نومن تین ہوگا اور نہ ہی رادھا ناچے گی اس لئے اگر اس قسم کے ریلیف فراہم کرکے بدلے میں عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری لائی جاسکتی ہے تو اس بارے بھی سوچنا چاہیے کیونکہ حکومت جس طرح عوام کو ریلیف فراہم کرنے سے انکاری ہے اس میں ہم جیسے عام لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کے کوئی نسخے بتادیتے ہیں تو چلو دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر