عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان میں خود کشی کے واقعات اچانک بڑھنے کی وجوہات میں سرفہرست بڑھتی ہوئی بے روزگاری، عدم معاش، عدم علاج و معالجہ اور مہنگائی سمیت دیگر عوامل ہیں۔ جس کی وجہ سے خودکشی کرنے کی شرح میں اضافہ ہونے لگا۔ حال ہی میں ضلع ڈیرہ بگٹی دو خودکشی کے واقعات رونما ہوئے جبکہ ہر سال سبی، نصیرآباد، لسبیلہ، کیچ، پنجگور، چاغی، خضدار، آواران، گوادر، لورالائی اور کوئٹہ میں بھی خودکشی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہرسال بلوچستان میں ایک سے دو سو سے زائد افراد خودکشی کر تے ہیں۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ صوبہ محرومی، پسماندگی، غربت، ناخواندگی،علاج کی سہولیات کی غیرموجودگی اور بیروزگاری کے حوالے سے ملک بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں بننے والی سویلین حکومتوں کو راولپنڈی کے گیٹ نمبر چار سے براہِ راست کنٹرول کیا جاتا ہے۔ گیٹ کی سرکار کی پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان میں غیر مستحکم حکومتیں بنتی رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے پسماندگی، محرومی اور غربت میں کمی ہونے کے بجائے مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ آج پورے ملک میں پسماندگی کے ہر پیرامیٹر کے حوالے سے بلوچستان کا نمبر پہلا ہوتا ہے۔ گوکہ یہاں پر بے شمار معدنی وسائل، لمبی ساحلی پٹی، ایران اور افغانستان کے ساتھ کاروباری سرحدیں موجود ہیں۔ مگر اُن پر حق حکمرانی اور ملکیت ملک بھر کے مٹھی بھر سرمایہ داروں، رئیسوں اور فوجی اشرافیہ کا ہے۔ جس کی وجہ سے ان تمام تر قدرتی وسائل کا فائدہ صوبے اور ملک کے چند رئیس، سرمایہ دار خاندانوں اور فوجی اشرافیہ کو مل رہا ہے۔ مثال کے طور پر صوبے کے جو حصے قدرتی وسائل سے مالامال ہیں۔ وہاں کے باشندے صوبے کے باقی حصوں سے بھی زیادہ پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں اور دو وقت کی روٹی، پینے کے صاف پانی، علاج، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات سے یکسر محروم ہیں۔
لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں ڈیرہ بگٹی کے علاقے سیاہ آف میں غربت کے باعث خودکشیوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ صرف رواں ماہ کے دوران ہی دو افراد نے خودکشی کی۔ خودکشی کا پہلا واقعہ علاقہ ہوڈو میں سرکری مسوری قبیلے سے تعلق رکھنے والے پچاس سالہ شخص نے غربت سے تنگ آکر زندگی کا چراغ گل کردیا۔ جبکہ دوسرا واقعہ علاقہ حبیب رائی میں ہوا جہاں دو بچوں کے باپ نوجوان نے آنکھ پر زخم آنے کے بعد علاج معالجہ نہ کرنے کی استطاعت سے مایوس ہوکر آدھی رات کو قریب ویرانے میں گلے پھندا لگا کر خودکشی کرلی۔ متوفی نے بوڑھے والدین دو بچوں اور بیوہ کو روتا چھوڑ دیا۔
بلوچستان کے دیگر اضلاع کی نسبت ڈیرہ بگٹی میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، عدم تحفظ، عدم معاش اور عدم علاج و معالجہ کے مسائل میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں وفاقی گیس کمپنیوں نے مقامی افراد کو روزگار فراہم کرنے میں اپنے دروازے بند کردیئے ہیں۔
سوئی میں 1952ء میں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے اور1967 تک پورے ملک کوصرف یہاں سے گیس سپلائی کی جاتی رہی۔ضلع ڈیرہ بگٹی میں اس وقت پانچ گیس فیلڈز ہیں۔ جن میں سوئی، پیرکوہ، لوٹی، اُوچ اور ٹوبہ نوحکانی ہیں لیکن ان میں سب سے پرانی اور بڑی گیس فیلڈ ہے۔ ضلع ڈیرہ بگٹی سے گیس نکلتی ہے۔ جو سینکڑوں میل دور پنجاب اور دیگر صوبوں کے مختلف شہروں تک تو پہنچائی جاتی ہے۔ لیکن ضلع کے مکین اپنے گھروں میں آج بھی لکڑیاں جلاتے ہیں۔ جبکہ تحصیل سوئی شہر میں جن گھروں کو گیس فراہم کی گئی ہے۔ وہاں بھی اکثر کوگیس کا دباؤ کم ہونے اور چولہے ٹھنڈے پڑنے کی شکایت رہتی ہے۔
سوئی گیس فیلڈ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) نامی ایک بدمعاش کمپنی چلاتی ہے۔ جس کا ہیڈکوارٹر کراچی میں ہے۔ یہ کمپنی بلوچستان حکومت کوگھاس نہیں ڈالتی۔ بظاہر وہ حکومت سے معاہدے تو کرتی ہے۔ مگراربوں روپے کے واجبات ادا نہیں کرتی ۔ ڈیرہ بگٹی کے باقی چارگیس فیلڈز پیرکوہ، لوٹی، اُوچ اورٹوبہ نوحکانی کا انتظام پاکستان کی ریاستی کمپنی آئل اینڈ گیس کارپوریشن لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) کے پاس ہے۔
پیرکوہ، لوٹی، اُوچ اور ٹوبہ نوحکانی کے غریب لوگ پانی، بجلی، تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات سے محروم ہیں۔ بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے مقامی لوگ آئے روز مظاہرہ کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی ہے۔ ان دونوں کمپنیز سمیت حکمران بہرے ہوگئے۔ پی پی ایل حکام ایک عرصے سے سن کوٹہ پر مکمل عملدرآمد نہیں کررہا ہے۔ مختلف حیلے بہانوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جبکہ گزشتہ کئی سالوں سے نئی بھرتیاں نہیں کی جارہی ہے۔
بلوچستان میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے واقعات میں سہر فہرست غربت و افلاس ہے۔ پاکستان میں غربت کے لحاظ سے بلوچستان کا پہلا نمبر ہے، 71.1فیصدلوگ غربت کا شکار ہیں، مزید یہ کہ غربت کی شہروں کی نسبت دیہاتوں میں زیادہ خطرناک صورتحال ہے۔ یعنی85فیصد دیہاتی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر کے 20غریب ترین اضلاع میں بلوچستان کے 16اضلاع شامل ہیں۔ عالمی اداروں کے حساب سے بلوچستان میں غربت کی بنیادی وجوہات کے حوالے سے جتنے بھی پیرامیٹرز ہیں۔ وہ شدید تنزلی کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر پینے کے صاف پانی کو اگر لیجئے۔ تو بلوچستان میں صرف 20فیصد لوگوں کو یہ سہولت میسر ہے۔ قحط سالی اور بے حس حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے دیہاتی آبادی کی شہروں کی طرف ہجرت ایک لازمی اور فطری امر ہے۔ اس کے علاوہ غربت کی دیگر وجوہات میں ریاستی جبر کے نتیجے میں بد امنی، انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی، ناخواندگی، علاج کی سہولیات کی غیرموجودگی اور بیروزگاری سرفہرست ہیں۔
ملک بھر میں بیروزگاری عروج پر ہے۔ اگر اس کو ہم بلوچستان کے حوالے سے دیکھیں تو صرف یہ کہنا کافی ہوگا کہ بلوچستان میں سالانہ تیس ہزار کے قریب نوجوان گریجوایشن کرکے محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں۔ جن میں صرف ڈھائی سے تین ہزار کے قریب نوجوانوں کو روزگار نصیب ہوتا ہے۔ جبکہ باقی بیروزگاری کا شکار ہوکر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی سیاسی طورپر مضبوط اعصابی قوت رکھتا ہے۔ تو وہ سیاسی و سماجی حالت کی پیش نظر بندوق اٹھاکر پہاڑوں کا رخ کرلیتا ہے۔ اگر کوئی اعصابی طورپر کمزور فرد ہوتا ہے۔ وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ان دونوں صورت حال میں ریاست ذمہ دار ہے۔ ایسے حالات پیدا کیوں کیے جاتےہیں کہ لوگ باغی یا خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ راولپنڈی کے گیٹ نمبر چار کی سرکار صوبے کے عوام کے احساس محرومی کے خاتمے کے لئے کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔
اگر ہم حال اور ماضی کو دیکھیں تو گیٹ کی سرکار نے کٹھ پتلی حکومتیں بنائیں اور گرائی بھی ہیں۔ حال میں جام حکومت کےلئے گیٹ کی سرکار نے اپنے دروازے بند کرکے قدوس بزنجو کے لئے دروازے کھل دیئے۔ اسی طرح ماضی میں نواب ثنااللہ زہری کے لئے گیٹ کھل دیئے گئے۔ اور کچھ عرصے بعد میں بند کردیئے گئے۔
بلوچستان میں حکومتیں گیٹ کی سرکاری بناتی ہے۔ اور ان کوگراتی ہے۔ جس سے ریاست کے دیگر ستون کمزور پڑ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ادارے غیر مستحکم ہوجاتے ہیں۔ معاشرے میں مہنگائی، بے روزگاری، افلاس و غربت اور دیگر معاشی اور سماجی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ بلوچستان کی حالت بہتر اور ابتر کرنے کے اختیارات صرف گیٹ کی سرکار کے ہاتھ میں ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور
کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ