نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سچ کڑوا تو ہوگا||حیدر جاوید سید

بظاہر یہ ناممکن لگتا ہے لیکن اس کے بغیر چارہ بھی تو کوئی نہیں آخری بات یہ ہے کہ ریت میں منہ چھپا لینے سے مسائل ختم ہوتے ہیں نا ہی سنگینی کم ہوتی ہے

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں انتہا پسندی کی تاریخ کے حوالے سے تین آرا ہیں اولاً یہ کہ چونکہ برصغیر کی تقسیم مذہبی نفرت کی بنیاد پر ہوئی اس لئے تقسیم کے بعد اس نے نیا رنگ اختیار کیا اس نئے رنگ کا قصہ سمجھنے کے لئے بہت زیادہ سر کھپانے کی بجائے زاہد چودہری اور حسن جعفر زیدی کی تصنیف کردہ کتاب ” پاکستان کی تاریخ ” کو پڑھ لیا جائے تو یہ بات دوچند ہوجاتی ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد نئی مملکت کے دارالحکومت کراچی میں مکتب خلافت کے دو طبقات بریلوی اور دیوبندی کے درمیان ریاست کی نظریاتی تفہیم کے حوالے سے ٹھن گئی تھی اس موقع پر سواداعظم صوفی سنی مکتب کے رہنماوں نے مولانا شبیر احمد عثمانی پر الزام لگایا کہ وہ پاکستان مخالف کانگریسی مسلمانوں کو ہندوستان سے لاکر کراچی میں ایک منصوبے کے تحت آباد کررہے ہیں ،
دوسری وجہ 1948 کی قرار داد مقاصد کو قرار دیا جاتا ہے اس کے نقادین کا کہنا ہے کہ یہ قرارداد جناح صاحب کی گیارہ اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی گئی تقریر کا کھلا انکار تھا قرارداد مقاصد نے گیارہ اگست 1947 والی تقریر کو ریاست کیلئے رہنما دستاویزات کا درجہ حاصل نہیں کرنے دیا بلکہ اس کی جگہ لےلی یوں قرارداد مقاصد نئی ریاست کا فکری بیانیہ ٹھہری
اس رائے کے حاملین یہ بھی کہتے ہیں کہ قرارداد مقاصد وزیر اعظم لیاقت علی خان کے ایما پر منظور کی گئی کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے مسلم قومیت کے تصور پر اگر گیارہ اگست 1947 کو کی گئی جناح صاحب کی تقریر کو ترجیح ملی تو وہ اور ان کے ساتھی آنے والے برسوں میں نئے ملک کی سیاست میں فالتو پرزہ بن کر رہ جائیں گے
تیسری رائے یہ ہے کہ انتہا پسندی نے افغان انقلاب ثور کے بعد شروع ہوئی اس جہادیت سے جنم لیا جسے اس وقت کی فوجی حکومت امریکہ اور مغرب کی سرپرستی حاصل تھی یہی جہادیت آگے چل کر فرقہ وارانہ کشمکش اور تشدد کی بنیاد بنی
ایک طبقہ اس رائے کا حامی تو ہے لیکن وہ یہ بھی کہتا ہے کہ انتہا پسندی کی ایک وجہ دو برادر اسلامی ممالک کی فرقہ وارانہ چپقلش بھی ہے ، ہمارے ہاں کبھی اس موضوع پر کھلے دل سے مکالمہ ہوا نا ہی کسی حکومت کے ذمہ دار نے اس پر بات کی ۔ ہماری دانست میں اس بات سے زیادہ اہم یہ ہے کہ زمینی حقائق کی روشنی میں اس کا تجزیہ کیا جائے کہ انتہا پسندی پھلی پھولی کیسے ؟
دودن قبل وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کچھ یوں کہا ” ریاست کی رٹ قائم کئے بغیر انتہا پسندی سے چھٹکارا ممکن نہیں جو ریاست قانون کی عملداری قائم نہ رکھ سکے اسے سمجھوتوں کی کڑوی گولی نگلنا پڑتی ہے "۔
وزیر اطلاعات کا یہ بھی کہنا تھاکہ "انتہا پسندی کے بڑھاوے میں صرف مدارس کو موردِ الزام ٹھہرانا درست نہیں ہوگا اس میں ایک بڑا حصہ سکولوں اور کالجز میں 1980ء اور 1991ء کی دہائیوں میں بھرتی کئے گئے شدت پسند اساتذہ کا بھی ہے جن کے زیراثر آئے بہت سارے طلباء زندگی کے حقیقی سفر سے کٹ کر انتہا پسندی کی طرف راغب ہوئے "۔
انہوں نے ماضی میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے ان افسوسناک واقعات کا بھی ذکر کیا جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ملوث تھے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے ٹی ایل پی سے ہونے والے حالیہ سمجھوتے کے تناظر میں بھی ریاست کے کردار، قانون کی بالادستی اور نچلی سطح کے اس انتظامی ڈھانچے کا بھی ذکر کیا جو اب ناپید ہے۔
فواد چودھری کی اس بات سے بھی اختلاف ممکن نہیں کہ ہمیں امریکہ یورپ یا ہندوستان سے نہیں خود اپنے آپ سے خطرہ ہے۔ یہاں ” آپ سے”
ان کی مراد یقیناً وہ انتہا پسندانہ رجحانات ہیں جو پچھلی چار دہائیوں کے دوران منظم منصوبے کے تحت پروان چڑھائے گئے اور بدقسمتی سے اکثر اوقات ریاست نے شدت پسندوں کی سرگرمیوں اور دوسرے معاملات کی جانب سے آنکھیں بند کئے رکھیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایک وقت کے مجاہدین کو جب دوسرے دور میں دہشت گرد قرار دیا گیا تو عوام کے سامنے بنیادی حقائق رکھنے کی بجائے محض نئی پالیسی کا ہی ’’دم‘‘ بھرا جاتا رہا جس سے بگاڑ پیدا ہوا کیونکہ ماضی میں جب ریاست افغان انقلاب ثور کے بعد شروع کی گئی جہادی سرگردیوں کی سرپرستی کررہی تھی تو ملک کے طول و عرض میں جہادیوں کی بھرتی کے دفاتر کھلنے لگے اور جہاد میں شرکت کی ترغیب کے لئے اجتماعات کا کھلے عام انعقاد ہوا۔
اصولی طور پر جہاد اسلامی ریاست کی ذمہ داری تھی اور ہے لیکن افغان جہاد کے زمانہ میں جس طرح نجی جہادی لشکر تیار ہوئے اس نے پاکستانی سماج میں شدت پسندی کی ایک نئی لہر دوڑادی۔
ستم بالائے ستم یہ کہ 1980ء کی دہائی کے عالمی حالات اور خطے میں در آئی تبدیلیوں نے پاکستان میں فرقہ وارانہ انتہا پسندی کا بھی دروازہ کھول دیا۔
اول اول تو یہ انتہا پسندی افغان جہاد کے بلندبانگ نعروں میں دبی رہی مگر جنیوا معاہدہ کے بعد جب مختلف الخیال جہادیوں کی واپسی ہوئی تو انہوں نے اپنی اپنی مذہبی فہم کی بالادستی اور اس کی بنیاد پر نظام اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کو جہاد کے طور پر سرانجام دینے کا راستہ اپنایا،
مختلف مسالک کے فہمی و نظری اختلافات سے ہوئی ذہن سازی نے شدت پسندی کا ایسا طوفان برپا کیا جس نے پاکستانی سماج کے روشن خیال چہرے کو مسخ کرنے کے ساتھ سماجی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ شدت پسندی اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی عسکریت پسندی کے ہاتھوں شہریوں اور ریاست کے بے پناہ نقصان کے باوجود کبھی کسی سطح پر اصلاح احوال کے لئے سنجیدہ کوششیں ہوئیں نہ اس پر غوروفکر کی زحمت کی گئی کہ ان خرابیوں کے بنیادی اسباب کیا ہیں۔
بہت ہوا تو ہمارے پالیسی سازوں اور عصری حالات سے نابلد رہنمائوں نے اس افسوسناک صورتحال کو پراکسی وار کا حصہ قرار دے کر مزید گمراہی پیدا کی۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے انتہا پسندی کے آغاز، اس کے پروان چڑھنے، نقصانات اور ریاست و قانون ہر دو کا اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی برتنے کے ضمن میں گزشتہ روز جو تجزیہ کیا وہ حرف بحرف درست ہے۔ ٹی ایل پی سے معاہدہ کا معاملہ یقیناً ایک مثال ہے ورنہ ماضی میں کئی بار پسپائی اختیار کی گئی اور ان انتہا پسندوں کو بھی مرکزی دھارے میں لانے کے لئے عام معافی کا اعلان کیا گیا جو حساس اداروں اور تنصیبات پر ہی حملوں کے مرتکب ہی نہیں ہوئے تھے بلکہ بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی ملوث تھے۔
ان کی یہ بات بھی درست ہے کہ ’’انتہا پسندی کے فروغ میں صرف دینی مدارس کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں‘‘۔ دینی مدارس کا نصاب اور مختلف مسالک کی تفہیم سے پیدا ہوئی شدت پسندی اپنی جگہ حقیقت ضرور ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے اجتماعی طور پر تصویر کا یہی ایک رخ سامنے رکھ کر پورا سچ بولنے سے گریز کیا حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ 40برسوں کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے جتنے بڑے واقعات ہوئے ان میں سے 60فیصد میں جدید تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان ملوث تھے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسے کسی بھی واقعہ کے رونما ہونے اور پڑھے لکھے نوجوانوں کے ملوث ہونے پر یہ کہہ کر جھوٹی تسلی دی گئی کہ بیروزگاری اور ناانصافی نے نوجوانوں کو دہشت گردی کی طرف راغب کیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر واقعتاً ایسا ہی تھا تو پھر بیروزگاری اور ان دوسرے مسائل کو ختم کرنے کے لئے حکمت عملی وضع کیوں نہ کی گئی جو فساد کی جڑ تھے؟
آج کے حالات یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے ملک گیر سطح پر بھل صفائی کی طرز پر پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے اس کے لئے لازمی ہے کہ پسندوناپسند کے مرض سے نجات حاصل کی جائے۔ ہر اس شخص، ادارے اور تنظیم کی حوصلہ شکنی کی جائے جس کی سوچ اجتماعیت سے متصادم ہو اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ریاست دستور میں دیئے گئے سماجی، معاشی، سیاسی اور مذہبی حقوق کی نہ صرف پاسبانی کرے گی بلکہ کسی کو اس کی اجازت نہ دے کہ وہ دوسرے کی زبان یا کسی اور طریقے سے تکفیر کرے۔
یہی واحد طریقہ ہے پاکستانی سماج کو انتہا پسندی سے نجات دلانے کا، یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیا ریاست اپنی موجودہ حیثیت میں ایسی حکمت عملی وضع کرنے اور شدت پسندی کے خاتمے کے لئے وہ اقدامات کرسکتی ہے جس سے شدت پسندی کے ماخذوں کا دائمی بندوبست ہوسکے ؟
بظاہر یہ ناممکن لگتا ہے لیکن اس کے بغیر چارہ بھی تو کوئی نہیں آخری بات یہ ہے کہ ریت میں منہ چھپا لینے سے مسائل ختم ہوتے ہیں نا ہی سنگینی کم ہوتی ہے

یہ بھی پڑھیں:

About The Author