وقت کی تعزیریں کسی مصلحت کی پابند نہیں ہوتیں - اعتزاز احسن چوہدری آج نہ پی پی پی میں صف اول میں ہیں نہ وکلاء سیاست میں اور علی احمد کرد کل بھی پیدل سپاہی تھے اور آج بھی ہیں -
عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی احمد کُرد "ایجنٹ” نہیں "پیدل سپاہی” ہے – پیدل سپاہی کسی "اسپانسرڈ تحریک” کے ظاہری بیانیے کو سچ سمجھ کر دل و جان سے ساتھ دیتے ہیں اور بعد ازاں جب اصل "بیانیہ” سامنے آتا ہے تو پھر یہ قیادت کو گالیاں نکالتے ہیں…….
چودھری اعتزاز احسن کُرد کے برعکس وُکلا تحریک کی حرکیات کو سمجھتے تھے، انھیں اچھے سے پتا تھا کہ اس تحریک کی مُحرک کون کون سی قوتیں ہیں، انھیں اچھے سے پتا تھا کہ نواز شریف فیکٹر اس تحریک کے پیچھے کتنا اہم ہے –
کیا چودھری اعتزاز احسن سے یہ بات چھپی ہوئی تھی کہ مشرف سے بھی پہلے نوے کی دہائی میں عاصمہ جہانگیر سمیت پنجاب، کے پی کے، بلوچستان میں بار کی سیاست میں سرگرم انسانی حقوق، آئین پرستی، قانون کی بالادستی کے کئی بڑے لبرل اشراف نام اپنے گروہوں کے ساتھ نواز شریف کیمپ میں ہیں اور عاصمہ جہانگیر کا گروپ لاہور میں وکلاء سیاست میں مسلم لیگ نواز کے انتہائی اہم وکیل سیاست کے ستون نصیر بھٹہ کے گروپ کی اتحادی ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عاصمہ جہانگیر کی قربتیں میاں نواز شریف کے ساتھ بڑھ چکی تھیں – اور ان قربتوں کا نتیجہ تھا کہ پنجاب میں سول سوسائٹی کا ایک بڑا لبرل اشراف سیکشن میاں نواز شریف کی پروجیکشن اور امیج بلڈنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا- اور یہی وکلاء تحریک میں لبرل سیکشن کی ترجمانی کررہا تھا-
دوسری جانب جماعت اسلامی، جماعت دعوہ، جے یو آئی ف اور س، سپاہ صحابہ، جے یو پی، جمعیت اھل حدیث مذھبی جماعتوں اور بنیاد پرست سیکشن کے وکلاء تھے، ان میں کچھ نواز شریف کیمپ سے براہ راست وابستہ تھے، کچھ براہ راست کیانی ٹولے کی اسٹبلشمنٹ سے وابستہ تھے، کچھ ضیاء الحقی تکفیری اسٹبلشمنٹ لابی کے زیر اثر تھے جو مشرف کے افغان طالبان کے خلاف امریکی اتحاد کو اسلام سے غداری سمجھتے تھے ان میں لال مسجد بریگیڈ بھی شامل تھا-
چوہدری اعتزاز احسن کو نجانے کیوں یہ خوش فہمی پیدا ہوچلی تھی کہ وکلای تحریک میں اُس کے بھرپور تعاون سے میاں نواز شریف لاہور سے اُن کی اھلیہ بشریٰ اعتزاز کو کامیاب کرانے میں اپنا تعاون پیش کرے گا –
چوہدری اعتزاز کی یہ خوش فہمی بھی تھی کہ عاصمہ جہانگیر، رشید رضوی، منیر اے ملک اور دیگر لبرل وکلاء نواز شریف کو جمہوریت کی بالادستی کے راستے پہ چلانے میں کامیاب ہوں گے اور نواز شریف اب وہ کردار ادا نہیں کرے گا جو اُس نے اے آر ڈی قائم ہونے کے چند مہنیوں بعد ادا کیا تھا اور مشرف سے ڈیل کرلی تھی –
چودھری اعتزاز احسن کی خوش فہمیوں کا یہ محل 2008ء کے الیکشن میں دھڑام سے گرگیا جب اُن کی اہلیہ کے الیکشن میں نواز شریف نے زرا مدد نہیں کی اور پھر اُس کے بعد افتخار چودھری عدلیہ نے پی پی پی کی حکومت کے ساتھ جو کیا اور اس دوران پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز میں جیسے افتخار چوہدری عدلیہ نے اپنے حامیوں کے قبضے میں دینے کی کوشش کی اُس سے بھی چوہدری اعتزاز احسن کے سامنے معاملہ کھل کر سامنے آگیا تھا –
چودھری اعتزاز احسن نہ صرف خود اپنی سیاست کو اپنی خوش فہمی سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا بیٹھے بلکہ انھوں نے پنجاب میں پی پی پی کا بھی بڑا نقصان کیا –
محترمہ بے نظیر بھٹو نے عاصمہ جہانگیر کے گھر پہ سول سوسائٹی کے ایک اجتماع میں عاصمہ جہانگیر اور اُن کے ساتھیوں کو یاد دلایا تھا کہ انہوں نے 1997ء میں ائرپورٹ پہ جاتے ہوئے انھیں متنبہ کیا تھا کہ جو مخالفانہ کردار انھوں نے پی پی پی کو کمزور کرنے کے لیے ادا کیا اس کا نتیجہ اُن کے سامنے جلد اسٹبلشمنٹ کے مکمل غلبے کی صورت میں سامنے آئے گا، وہ آیا لیکن لبرل اشراف نے ایک بار پھر اے پی ڈی ایم کی تشکیل کے نواز منصوبے کے وقت اے آر ڈی کی سپورٹ سے الگ ہوکر پھر وہی غلطی دہرائی ہے –
آصف علی زرداری نے حامد میر کو انٹرویو میں کہا تھا کہ عاصمہ جہانگیر نے پی پی پی کے دور میں جمہوریت کے خلاف سازشوں اور اُن کے خلاف چلنے والے عدالتی و میڈیا ٹرائل میں کبھی وہ کردار ادا نہیں کیا جو وہ نواز شریف کے باب میں ادا کرتی رہیں –
کیا عاصمہ جہانگیر کے عاشق (میں بھی اُن کی جدوجہد کق عاشق ہوں سوائے نواز شریف سے اُن کے گتھ جوڑ کے دنوں کو چھوڑ کر) ہمیں دکھا سکتے ہیں کہ جب نواز شریف پلس کیانی پلس افتخار چوہدری ٹرائیکا بنا تو انھوں نے اس ٹرائیکا کی مذمت کی ہو؟ انھیں تو نواز شریف کی طرف سے عدلیہ کی آزادی کے نعرے میں کوئی پس پردہ ایجنڈا سرے سے نظر نہیں آیا اور نہ انھوں نے میثاق جمہوریت کے مطابق عدالتی اصلاحات کرنے کے پی پی پی کے موقف کے حق میں وکلاء برادری میں کوئی تحریک چلائی –
وقت کی تعزیریں کسی مصلحت کی پابند نہیں ہوتیں – اعتزاز احسن چوہدری آج نہ پی پی پی میں صف اول میں ہیں نہ وکلاء سیاست میں اور علی احمد کرد کل بھی پیدل سپاہی تھے اور آج بھی ہیں –
یہ بھی پڑھیے:
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر