مظہر اقبال کھوکھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سئیں سنا ہے کل اسمبلی میں بھر پور اجلاس تھا کوئی بل پاس ہوا ہے آپ بتائیں غریب عوام کے لیے کسی بات پر اتفاق ہوا ہے؟مہنگائی کے خاتمے اور قیمتوں میں کمی کے لیے کوئی فیصلہ کیا گیا ہے ؟ آٹا ،چینی ،گھی، پیٹرول اور ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں کچھ کم کی گئی ہیں ؟ سئیں بل پاس ہوجانے کے بعد عوام کو کوئی ریلیف ملے گا نا وہ امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے مسلسل سوال پر سوال کئے جارہا تھا اور میں انتخابی اصلاحاتی ترامیمی بل پر حکومت کو ملنے والی کامیابی پر غور کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اسے کیا بتاؤں ملک کے وسیع تر مفاد میں بہت کچھ ہوا ہے ، حکومت کو فتح ہوئی ہے ، اپوزیشن کو شکست ہوئی ہے ، سازشیں ناکام ہوئی ہیں ، جمہوریت کی فتح ہوئی ہے ، صفحہ بچ گیا ہے ، اتحادی پرانی تنخواہ پر راضی ہوگئے ہیں اپوزیشن نے مخالفت کر کے بھی حکومت کو بھر پور سپورٹ کیا ہے مگر اس عام بندے کو کیسے سمجھایا جاسکتا ہے جس کی سوئی آٹا، چینی ، گھی پر اٹکی ہوئی ہو جیسے کسی بھوکے سے پوچھا جائے کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو وہ کہتا ہے چار روٹیاں ۔ سچ تو یہ ہے پچھلے کچھ عرصے سے مہنگائی نے جو حشر کیا ہے عام آدمی جس کے لیے پہلے ہی دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل تھا اب تو حالت کہیں زیادہ خراب ہے بلکہ جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے بیچارے غریب عوام حکومت کے ہر قدم ، ہر عمل ، ہر اعلان ، ہر اجلاس پر حکومت سے ایک نئی امید باندھ لیتے ہیں کہ شاید اب ہماری سنی جائے شاید حکومت اپنے وعدوں پر عمل درآمد کر لے ایسی صورتحال میں اسمبلی کا ہنگامہ خیز مشترکہ سیشن ہو تو عام آدمی کا یہ پوچھنا تو بنتا ہے کہ آخر ہوا کیا ؟ ممکن ہے اپوزیشن نے عوام کے لیے کوئی ہنگامہ کیا ہو ممکن ہے غریب کی حالت زار کے لیے کوئی واک آؤٹ ہوا ہو ممکن ہے عوام کا دکھ درد دور کرنے کے لیے کوئی ترمیم ہوئی ہو ممکن ہے روزگار کے لیے کوئی بل پاس ہوا ہو ممکن ہے اسپیکر نے غریب کے حق میں کوئی رولنگ دی ہو مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا مگر حکومت کامیاب ہوگئی ہے حکومت کو تاریخی فتح ہوئی ہے۔
گو نیازی گو ، آٹا چور چینی چور ، کون بچائے گا پاکستان عمران خان عمران خان کے نعروں ، دھینگا مشتی ، دھکم پیل ، شور شرابے کے ساتھ حکومت انتخابی اصلاحات ترمیمی بل پاس کرانے میں کامیاب ہوگئی بل کے حق میں 221 ووٹ جبکہ مخالفت میں 203 ووٹ آئے۔ جس کے تحت اب بیرون ملک پاکستانی آئندہ انتخابات میں انٹر نیٹ کے زریعے اپنے ووٹ کا حق استعمال کر سکیں گے جبکہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کو عالمی عدالت میں اپیل کا حق ، عورتوں اور بچوں پر جنسی تشدد سمیت 33 ترمیمی بل پیش کئے گئے جن میں سب سے اہم اور سب سے متنازعہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہے جس پر حکومت اور اپوزیشن کا پہلا بھی اتفاق نہ ہو سکا جبکہ بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن نے حکومت پر سخت تنقید کی شہباز شریف نے کہا پارلیمانی روایت کی دھجیاں اڑا کر قانون بلڈوز کرنا انتہائی غلط بات ہے حکومت کی سوچ محدود ہے عوام سے ووٹ ملنا مشکل ہے اس لیے حکومت مشین کے زریعے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتی ہے اسی طرح بلاول بھٹو نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی منظوری کے بعد آئندہ انتخابات کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے متنازعہ بل کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ حکومت اسے اپنی تاریخی فتح قرار دیتے ہوئے دھاندلی کے خلاف ایک اہم پیش رفت قرار دے رہی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اکیسویں صدی آئی ٹی کی صدی ہے دینا سمٹ کر انگلیوں کی پوروں تک محدود ہوگئی ہے ہماری زندگی کے بہت سے معاملات آئی ٹی سے جڑ کر آن لائن ہو چکے ہیں تو ایسے میں اگر ہم الیکٹرک ووٹنگ مشین جیسی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہیں تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں مگر جہاں تک دھاندلی کا تعلق ہے دھاندلی درحقیقت ایک سوچ کا نام ہے بدقسمتی سے ہمارے ہاں کبھی بھی انتخابات غیر جانبدارانہ اور شفاف نہیں ہوئے مگر ایک صفحے پر آجانے کے نتیجے میں کامیاب ہو جانے والی ہر جماعت کہتی ہے کہ انتخابات شفاف ہوئے اور ہار جانے والی ہر جماعت دھاندلی کا الزام لگاتی ہے الیکشن کمیشن کتنا پاور فل ہے اس کے خلاف وزراء کے لب و لہجے سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے حالانکہ پاکستان تحریک انصاف دھاندلی کے خلاف ایک بڑی مزاحمتی جماعت بن کر سامنے آئی تھی مگر ڈسکہ الیکشن پر الیکشن کمیشن کی رپورٹ نے اسے بے نقاب کر دیا ایسی صورتحال میں الیکشن پر بلواسطہ اور بلا واسطہ اثر انداز ہونے اور ہار جیت کے فیصلے کرنے والی قوتیں اور سوچ جب تک اپنی سوچ نہیں بدلے گی اس وقت تک نہ تو انسانوں کے زریعے دھاندلی ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی مشینوں کے زریعے انتخابات شفاف ہوسکتے ہیں۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ حکومت نے بل منظور کرا کے ایک طرح سے اپنا اعتماد بحال کرا لیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے صفحہ اسی طرح برقرار ہے مگر یہ کامیابی وقتی ہے اصل کامیابی مدت پوری کرنا نہیں ہوتا بلکہ حکومت کرنا ہوتا ہے اور حکومت وہ ہوتی ہے جس کے ساتھ عوام کے دل دھڑکتے ہیں مگر افسوس جس پی ٹی آئی سے بہت سی امیدیں وابستہ کر کے لوگوں نے ووٹ دئے تھے آج ان لوگوں اور اس عوام کے دل حکومت کے ساتھ نہیں دھڑکتے بلکہ حکومت سے ہی دھڑکتے ہیں اس کی پالیسیوں سے دھڑکتے ہیں
اس کے خوف سے دھڑکتے ہیں مگر حکومت ابھی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ بیساکھیوں کے سہارے کھڑا رہنا تو شاید ممکن ہو مگر زیادہ دیر تک چلا نہیں جاسکتا۔
مظہر اقبال کھوکھر
مظاہر قلم
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی