گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی آبادی کا 65% دیہاتوں میں آباد ہے ۔ دیہی خواتین کاشتکاری کے ہر کام میں مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ وہ صبح سویرے بچوں کو تیار کر کے سکول بھیجتی ہیں۔پھر ناشتہ تیار کر کے کھیتوں میں پہنچاتی ہیں۔
جانوروں کا چارہ ۔گھر اور بھانڑے کی صفائی۔برتن اور کپڑے دھونا۔دودھ دوھنا۔بلونا ۔کھانا پکانا ۔سب اس کے ذمہ ہوتا ہے۔ کپاس اور سبزیوں پھلوں کی چنائی بھی کرتیں ہیں۔ فصل کی کٹائی اور گہائی میں حصہ لیتی ہیں۔ نماز ۔روزہ۔ قران پاک کی تلاوت بھی کرتی ہیں۔کشیدہ کاری ۔چنگیریں ۔پھوڑیاں۔مصلے بنانا ۔ یہ سب کام سر انجام دیتی ہیں۔
اس کے باوجود دنیا میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی آدھی آبادی خواتین کوئی کام نہیں کرتی۔وجہ یہ ہے کہ باہر کے ملکوں میں صنعتی ترقی کی وجہ سے عورتیں فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں تو زیادہ نمایاں نظر آتی ہیں مگر ہماری خواتین دور دراز دیہاتوں میں مصروف عمل ہیں تو بیکار نظر آتی ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے لوگ مغربی کلچر سے مرعوب نظر آتے ہے کیونکہ نہ ہی اپنے کلچر کو اجاگر کیا جاتا ہے نہ ہی اس کی پبلسٹی ہوتی ہے۔
ہم اپنے کلچر اور اپنی خواتین پر فخر کرتے ہیں اور ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔salute
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ