مہرین فاطمہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر وہ شخص جو مٹی کو سونا بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو بنجر زمین کو اپنی محنت سے سرسبز میں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے کسان کہلاتا ہے ایک کسان کی زندگی بہت گھٹن اور بیش بہا مسائل میں گھری ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی فصل کی پرورش کرنے میں لگا رہتا ہے وہ اپنی فصل کو ہمیشہ بہتر سے بہتر رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔اس پوری دنیا میں کسان کا بڑا اہم کردار ہے گندم سے لے کر دال تک کسان کی مرہون منت ہے جس ملک کی خوشحالی کا اندازہ لگانا ہو تو آپ اس ملک کی زراعت کو دیکھیں یا اس ملک کے کسان کو دیکھیں اگر اس ملک کا کسان خوشحال ہے تو سمجھیں وہ سارا ملک خوشحال ہے بعض اوقات کسان کو اپنی فصلوں سے نقصانات بھی اٹھانے پڑتے ہیں اور بعض اوقات بھاری نفع بھی ملتا ہے مگر وہ ہمیشہ اپنی محنت جاری رکھتا ہے جس میں کسان کاشت کار اپنے آپ کو تھکاتے ہیں، تب کہیں جاکر یہ خدائی نعمتیں اجناس جس کو اللہ اس زمین کے اندر پہناں کررکھا ہے ، اس قدرت خدا وندی کے مظاہر کو زمین سے چیر کر نکالتے ہیں ۔
انسانی زندگی اور اس کی بقاء کے لئے پیشہ زراعت کی اہمیت اور افادیت مسلمہ ہے ، قرآن کریم نے پیشہ زراعت کی اہمیت کو بتلانے کے لئے جگہ جگہ پر زراعت اور اس کے پس منظر کو ذکر کیا ہے ۔
چنانچہ ارشاد ہے کہ "اللہ کی ذات وہ ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس کے ذریعہ ہر قسم کی اگنے والی چیزیں نکالیں، پھر ہم نے اس سے سبزہ والی چیزوں کو نکالا ۔ ہم نکالتے ہیں اس سے دانے جو ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہیں۔ اور کھجور کے درخت یعنی اس کے کھپوں سے خوشے نکالے جو جھکے ہوئے ہیں، اور انگوروں کے باغ اور زیتوں کے باغ نکالے اور انار جو آپس میں ملتے جلتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو ملتے جلتے نہیں ہیں۔ اس کے پھلوں کی طرف دیکھ لو اور اس کے پکنے کی طرف۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔‘‘(سورۃ الأنعام)
زراعت پاکستان کے لئے ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ ملکی زرمبادلہ میں زراعت کا حصہ بائیس فیصد ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے باوجود ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔ ہمارے مقابلے میں دنیا کے دیگر ملک زیادہ پیداوار دے رہے ہیں۔ اگر زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے پھنسے جارہے ہیں، کھاد نہ صرف مہنگی ہو رہی ہے بلکہ کاشت کے دنوں میں ناپید ہو جاتی ہے، دیگر زرعی لوازمات بھی ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگے ہو رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں یوریا کھاد کی قیمت 9000 اور ڈی اے پی کی اوسط رقم 8500 روپے فی 50 کلوگرام سے بھی زیادہ ہو گئی۔ ہماری حکومت نے زرعی ٹیکس اور دیگر کئی صورتوں میں زرعی اشیاء کو شدید مہنگا کر دیا ہے۔ غریب پہلے مہنگائی کی وجہ سے سبزی کھانے پر ترجیح دیتا تھا مگر اب وہ بھی مہنگائی کے باعث غریبوں کی پہنچ سے دور ہو رہی ہے۔ موجودہ حالات میں کسان کھیتی باڑی کی بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کر رہے ہیں۔ فصل کی کاشت کے دنوں میں کیمیائی کھادیں ہر علاقے میں مختلف نرخوں پر فروخت کی جاتی ہیں۔کھاد ڈیلر فی بوری سے منافع بھی کماتے ہیں جبکہ اس دوران ملاوٹ مافیا بھی متحرک ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے فصلوں سے معیاری پیداوار حاصل نہیں ہوتی ہے اور زمین کی زرخیزی بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زہریلی زرعی ادویات کے نرخوں میں بھی بے تحاشا اضافہ کسانوں کی قوت خرید سے باہر ہے۔ نا مناسب کھادوں، زہریلی زرعی ادویات کا استعمال ہونے کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار میں کمی ہونے لگی ہے۔
حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم جاری کیا کہ کسان اپنی فصلوں کو ملک کے کسی بھی اضلاع میں فروخت کر سکتے ہیں۔ اس حکم کے بعد پنجاب کے کسانوں نے اپنے گنے کی کاشت کو اندروں سندھ فروخت کرنے کے لئے نقل و حرکت شروع کی کیونکہ سندھ میں گنا کا ریٹ بہت زیادہ ہے اور اندرون سندھ شوگر ملیں 250 من کے حساب سے دے رہی ہیں جبکہ پنجاب میں اسی گنے کا ریٹ 225 من کے حساب سے ہے۔ اس وجہ سے کسان حضرات سندھ پنجاب بارڈ سے اندورن سندھ گنے کو فروخت کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کاشتکاروں کی نقل و حرکت پابندی سراسر ظلم ہے۔ جبکہ حکومت تماشائی بنی ہوئی ہے اب تک کسانوں کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں کیے گئے اس سارے عمل میں پنجاب سندھ بارڈر پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں جس سے عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے۔ کسانوں کا احتجاج جاری ہے موجود حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت جو کہ کسانوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔ہمارا حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ کسانوں کے تمام مذاکرات مانیں جائیں کیونکہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی ہمارے کسانوں کی ترقی و خوشحالی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ کسانوں کی ترقی کے بناء ملکی معیشت کی سر بلندی ناممکن ہے۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر گوشہء گندم کو جلا دو
مہرین فاطمہ کا تعلق ضلع مظفر گڑھ سے ہے، ایم اے سرائیکی ہیں،2019ء سے مختلف موضوعات پر لکھنا شروع کیا ، سرائیکی وسیب کےمختلف اشاعتی اداروں میں ان کی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں، سرائیکی افسانوں کا مجموعہ بھی زیر طبع ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ