حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متحدہ حزب اختلاف کے 16غیرحاضر ارکان ایوان میں موجود ہوتے تو ان کی تعداد 219 ہوجاتی اسی طرح اگر حکمران اتحاد کے 2غیرحاضر ارکان موجود ہوتے تو تعداد 223 ہونا تھی، اس سے زیادہ کیا ہوتا؟4ارکان کا فرق پھر بھی رہتا۔
رانا ثناء اللہ کا یہ دعویٰ کہ پی ٹی آئی کے 35ارکان ہم سے رابطے میں تھے وہ حکومت کو ووٹ نہیں دینا چاہتے تھے، دیوانے کی بڑ ہے یا اس میں کچھ حقیقت بھی؟
دو باتیں البتہ غور طلب ہیں، اولاً یہ کہ کیا حکومت نے واقعی چھومنتر کروایا اور ’’جانے والے‘‘ نے منصب چھوڑنے سے دو دن قبل یاروں کی آخری ’’خدمت‘‘ بھی ذوق و شوق سے کی؟ اپوزیشن کہتی ہے کہ حکومت کے 4ووٹ زائد شمار کئے گئے اور ہمارے کم، کتنے کم؟ کیونکہ اس کے 16ارکان غیرحاضر تھے۔ چار ووٹ غلط شمار ہوئے ہیں تو بھی 203 اور 217کا ہی مقابلہ رہتا۔ اس صورت میں کیا ہوتا؟
یہ وہ سوال ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
فقیر راحموں کہتے ہیں کہ انہیں سول سپر میسی کے حامی یوٹیوبر سے دلی ہمدردی ہے کہ ان کے ’’انقلاب‘‘ کا چھابہ الٹ گیا۔ کیا واقعی کسی انقلاب کی دستک سے گھبراکر منتظمین نے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا ضروری سمجھا ورنہ خطرہ یہ تھا کہ وہ اگلے چند دنوں میں لگنے والی انقلابی عدالتوں میں صفائی دیتے ہوئے پھررہے ہوتے؟
بظاہر ایسا لگ نہیں رہا تھا لیکن جب بڑے بڑے "سورمائے” یوٹیوبر ایک ہی بات کہہ رہے ہوں تو یقین کرلینا چاہیے کیونکہ ان کے خیال میں موجودہ حالات میں (ن) لیگ کے اخلاص، انقلاب، جدوجہد اور قربانیوں کی داستان پر شک و شبہ جمہوریت دشمنی اور اسٹیبلشمنٹ کی چاکری ہے۔
البتہ ان دو ملاقاتوں پر یہ تجزیہ نگار چپ ہیں جو جناب شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے حالیہ عرصہ میں "شوق” کے ساتھ کیں۔
ان ملاقاتوں کے راویوں کا دعویٰ ہے کہ ملاقاتوں میں دونوں انقلابی قائدین سے یہ کہہ دیا گیا تھا کہ ’’اپنے انقلاب کو سڑکوں، تقریروں اور بڑھکوں تک محدود رکھیں‘‘۔
راوی درست ہے یا غلط، زندیق ہے یا ایمان والا صالح اس پر بحث اٹھانے کی ضرورت کیا ہے۔ ہماری تاریخ ایسے راویوں سے بھری بلکہ اٹی پڑی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ایک دوست کے اس موقف سے متفق نہیں ہوپارہے کہ کھیل کا پانسہ پلٹنے میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی کا بڑا بلکہ بنیادی عمل دخل ہے اس بیان حلفی نے تھرتھرلی مچادی تھی۔
مسیحاوں کو لگا کہ ہوسکتا ہے کہ حسب کل جب وہ سوکر بیدار ہوں تو عدالتوں میں دھکے کھاتے پھر رہے ہوں۔
خیر قانون سازی بلڈوز ہوئی والی بات میں اتنا دم بہرطور ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ والے قانون کو پیش کرنے سے قبل کہا گیا اپوزیشن سے بات چیت ہورہی ہے اس لئے اسے مئوخر کردیجئے۔ پھر حکم ہوا اسے ایوان میں رائے شماری کے لئے پیش کیا جائے۔ "مئوخر کیجئے اور ایوان میں پیش کریں” دونوں باتیں بس چند لمحوں کے وقفے سے کہی گئیں۔ چند لمحوں میں کیا ہوا ؟،
یہ سوال بھی بنتا ہے کہ جب سپیکر قومی اسمبلی قانون سازی کے لئے اتفاق رائے کی تلاش میں اپوزیشن سے ملاقاتوں اور خط و کتابت میں مصروف تھے پھر ایکاایکی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کیوں بلالیا گیا؟
کیا یہ بات درست ہے کہ رانا شمیم والے بیان حلفی نے منتظمین کو حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کردیا؟ ہو بھی سکتی ہے اس کی تائید حکمران جماعت کے کراچی سے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کی اس بات سے ہوتی ہے کہ ’’ہم آئے نہیں لائے گئے ہیں، وہی لائے ہیں جو لانے کا انتظام کرتے ہیں‘‘۔
عامر لیاقت نے ایوان سے باہر صحافیوں کے سوال کے جواب میں یہ بات کہی مگر ایوان کے اندر ان کی پھرتیاں مجبور و بے بس شخص کی نہیں بلکہ ایک "جی دار مجاہد” کی سی تھیں جو بات بات پر لڑنے مرنے پر تیار تھا۔
لائے گئے تو صرف ہاں یا ناں کا فرض پورا کرتے ہیں مجاہدوں کی طرح دوسروں کے گلے نہیں پڑتے۔
اچھا حکومت کی فتح مندی کے پھریرے لہراتے ہوئے پارلیمنٹ سے باہر پریس بریفنگ دینے والوں کے چہرے کیوں اترے ہوئے تھے اس کی وجہ کوئی جانتا ہو تو آگاہ کر کے ثواب دارین حاصل کرے۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کے دو درجن سے زائد بل منظور کرلئے گئے۔ حکومت کے پاس بظاہر 18ووٹ زائد تھے۔ شہباز شریف کا الزام درست بھی ہو تو یہ 18کی بجائے 14ہوں گے۔ باقی کا حساب بالائی سطور میں عرض کرچکا۔ اہم سوال وہی ہے جو بلاول بھٹو نے اٹھایا کہ
"اگر پارلیمنٹ کے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سے کام نہیں لیا جاسکتا تو یہ کیسے ہوگا کہ لاکھوں پولنگ سٹیشنوں پر الیکٹرانک سٹسم کام کرے؟”
یہ بھی سمجھ لیجے کہ150ارب روپے کے اضافی اخراجات ہوں گے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم پر لگ بھگ 2 لاکھ مشینیں درکار ہوں گی۔ اڑھائی سے تین لاکھ آئی ٹی ماہرین کی ضرورت ہوگی۔ یہاں البتہ ایک سوال ہے وہ یہ کہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی رپورٹ پر کسی سطح پر غور کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی گئی۔
جن خدشات کا اظہار کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کیا ان کا جواب کیا ہے؟ مثلاً اگر مشین کی’’چپ‘‘ گم ہوجاتی ہے تو کیا ہوگا۔ مزید سوالات بھی ہیں غالباً 26 صفحات پر مشتمل رپورٹ ہے اسی پر تنازع شروع ہوا تھا۔
اچھا کیا 18ماہ کے اندر الیکٹرانک ووٹنگ کا بندوبست ہوجائے گا؟ بظاہر ایسا ممکن نہیں 2 لاکھ مشینیں چھابوں میں سجی ہوئی نہیں رکھیں کہ بھاو تاو کریں اور خرید کر لے جائیں۔ پولنگ کے لئے سو فیصد مشینوں پر انحصار کہاں اور کس ملک میں ہورہا ہے؟
یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ دھاندلی کے ماہرین رورہے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات بھی ماضی کے انتخابات کی طرح دھاندلی کے الزامات کی زد میں ہیں اس طرح پی ٹی آئی بھی اسی صف میں کھڑی ہے جس میں دوسری جماعتیں جو ’’سرکار‘‘ کے تعاون سے اقتدار پاتی رہیں۔
مناسب ہوتا اگر انتخابی اصلاحات پر اتفاق رائے سے قانون سازی کرلی جاتی۔ عدم اتفاق سے مسائل بہرطور جنم لیں گے۔ فتح مندی کے نشے میں مسائل کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
اپوزیشن قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کررہی ہے۔ کیا قانون سازی کے عمل کو چیلنج کیا جاسکے گا بہتر جواب تو قانونی ماہرین دے سکتے ہیں فی الوقت تو یہ ہے کہ شاید اس میں اپوزیشن کو کامیابی نہ ملے۔ ہاں ’’پیا‘‘ کا موڈ بدل جائے تو کچھ بھی ممکن ہے لیکن ’’پیا‘‘ کا موڈ بدلنے کے امکانات کم ہیں۔
اسی لئے چڑیا والے بابے کو شٹ اپ کال دی گئی ہے کہ ” اس کے حوالے سے یہ دعویٰ کیوں ہوا کہ اسے لندن مذاکرات کے لئے بھجوادیا گیا تھا” ،
متحدہ اپوزیشن کو پتے سنبھل کر کھیلنے چاہئیں تھے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ظاہری طور پر متحد ، متحدہ اپوزیشن کے اندر تقسیم موجود تھی۔
گزشتہ روز سوشل میڈیا پر دو میز بہت مشہور ہوئیں اولاً مریم نواز کی کہ انہوں نے چچا سے کہا، "چچا اب آرام ہے”۔ ثانیاً شہباز شریف کی کہ انہوں نے مریم سے کہا، "جاو بیٹا اب انقلاب لے آو”۔ چلیں چھوڑیں یہ شغل میلہ چلتا رہتا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ ایک بات طے ہوگئی وہ یہ کہ ہوتا وہی ہے جو سرکار چاہتی ہے باقی تو من چلے کے سودے ہیں بس۔
Like
Comment
Share
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ