سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسٹریلیا کے ٹی 20ورلڈ کپ کے چیمپئن بننے کے بعد جوتوں میں شراب ڈال کر جشن منانے کی جو ویڈیو وائرل ہوئی ہے اس پر تف ہی کیا جاسکتا ہے کہ ایسے غلیظ جشن سے اللہ بچائے۔ آسٹریلوی ٹیم کا جوتوں میں شراب ڈال کر پینے کی ویڈیو مسلمان ممالک کے لئے بہت بڑا پیغام اپنے اندر لئے ہوئے ہے کہ ہم جن مغربی جوتوں کے دلدادہ ہیں ان کے نزدیک اخلاقیات، پاک ناپاکی اور صفائی ستھرائی کا یہ غلیظ معیارہے۔ چونکہ بظاہر چمکنے والی ہر چیز سونا نہیں ہوتی بالکل اسی طرح آسٹریلیا سمیت دیگر مغربی لوگوں کی ترقی جس کو دیکھ کر مجھ سمیت ہر کوئی رشک کرتا ہے اوروہاں جانے کی خواہش رکھتے ہیں، کو ذرا اس پہلو پر بھی دھیان دینا چاہیے کہ وہ جن اغیار کی پیروی کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں وہ تو درحقیقت بنیادی صحت کے اصولوں سے ہی بالکل عاری ہیں۔ وہ مغربی ممالک جن کو ہم حسرت و یاس سے دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں ان کی اصلیت تو کچھ یوں ہے کہ وہ نہ صرف اخلاقیات سے گری ہوئی بات اور فعل کرتے ہیں بلکہ اپنے ہی پیروں کی جوتی میں شراب ڈال کر اپنے اپنے حلق میں انڈیلتے ہیں اور یہ تک بھول جاتے ہیں کہ جوتوں میں کتنی گندگی اور غلاظت لتھڑی ہوئی ہوسکتی ہے لیکن جس خوشی کے ساتھ آسٹریلوی کھلاڑی جوتوں میں شراب پی رہے ہیں تو اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ ان کی جانب سے Unhygenic چیزیں نہ صرف مارکیٹ میں فروخت کی جاتی ہیں بلکہ عوام ان کو بڑے فخر کے ساتھ لیتے بھی ہیں۔
پاکستانی قوم کے نوجوان ہمیشہ سے مغرب کو فالو کرتے ہیں اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اب جس طرح مغربی دنیا کی اصلیت دنیا پر وا ہورہی ہے اس سے ہمارا رہا سہا بھرم بھی ٹوٹتا ہی جارہا ہے کہ ایک طرف تو مغربی ممالک بڑے دھڑلے کے ساتھ دنیا کو صفائی ستھرائی کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں لیکن خود اس کی روح سے کوسوں دور ہیں۔ ذاتی اور گھروں کی صفائی ستھرائی کے لئے اتنے ڈٹرجنٹس متعارف کرواتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اپنے لوگوں کی روح کی صفائی اور پاکیزگی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی جس کا مظاہرہ آسٹریلیا کی ٹیم نے ٹی 20کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد کیا۔ ظاہر ہے بحیثیت مسلمان ہم اس غلیظ جشن پر تف ہی کہہ سکتے ہیں تاہم دوسری طرف اس ایک واقعہ سے ہم مسلمان بالخصوص نوجوان نسل بہت کچھ سیکھ سکتی ہے کہ ہم جو یورپ کی اندھی تقلید میں پاگل ہوئے پھرتے ہیں تو ان کی اصلیت یہ ہے کہ انہیں حلال و حرام تو کیا پاکی ناپاکی اور غلاظت کی بھی تمیز نہیں۔ نوجوان نسل جو فاسٹ فوڈ کے دلدادہ ہے، اگر ایک لمحے کے لئے ان کے بنائے جانے کے طریقوں کو ہی دیکھ لیں تو بہت سی الجھنیں خودبخود دورہوجائیں گی۔ اسی طرح ہمارے لوکل برانڈز جن کو ہم حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنے برانڈز کو پروموٹ کرنے کی بجائے غیرملکی برانڈز کو خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ایسا کرکے ہم کس کی خدمت کررہے ہیں تو اس کا صاف سیدھا جواب یہی ہے کہ ہم مغربی ممالک کو خالصتاً فائدہ پہنچارہے ہیں اور اپنے ملک کی تیار کردہ پراڈکٹس کو خود ہی ڈی ویلیو کررہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے Made In Pakistan کا نعرہ لگایا تھا جس کے بعد مقامی طور پر پراڈکٹس تیار کرنے والوں کو امید ہوئی کہ اب اپنی مقامی چیزوں کی خریداری میں اضافہ ہوگا لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے اندر حب الوطنی کا جذبہ صرف ملی ترانوں تک ہی محدود ہے اور وہ بھی 14اگست یا 23مارچ پر جشن منانے کے نام پر جو طوفان بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہماری نئی نسل اخلاقیات اور تہذیب کا دامن اس تیزی کے ساتھ چھوڑ رہی ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملتا کہ ہم وہ قوم تھے جو 65ء کی جنگ میں وسائل نہ ہونے کے باوجود اپنی سے بڑی اور طاقتور فوج سے جوانمردی اور بہادری سے لڑے پھر یہی جوش و جذبہ 2005ء میں زلزلے کے موقع پر دیکھنے میں آیا کہ جب پوری قوم یک زبان ہوکر زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں مدد کے لئے آن پہنچی۔ پھر یہی اتحاد اور جذبہ سانحہ پشاور APS کے موقع پر دیکھنے کو ملا کہ جب دہشت گردوں کے خلاف پوری قوم متحد ہوئی جس کے نتیجہ میں ہم نے دہشت گردی کو شکست دی اور دنیا کو دکھایا کہ وہ کام کو جدید ترین اسلحہ سے لیس ترقی یافتہ ممالک بلکہ سپر پاور امریکہ اور اس کی اتحادی افواج مل کر نہ کرسکیں، پاکستان کی محدود وسائل رکھنے والی فوج نے وہ کر دکھایا۔ آج بھی اپنے ماضی کے ان کارناموں کو یاد کرکے ایک جوش وجذبہ اور جو خوشی پیدا ہوتی ہے وہ دیدنی ہے اور یہ یقین پختہ ہوجاتاہے کہ اگر ہم متحد ہوکر مشکلات کا مقابلہ کریں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔ ایسے میں یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اگر آج ہم بحیثیت قوم یہ تہیہ کرلیں گے کہ ہم نے اپنی قسمت بدلنی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت بن کر نہ ابھرسکیں لیکن اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنا احتساب خود کرنا ہوگا اور اس بات کا تہیہ کرنا ہوگا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں یا ہجوم کہ جسے اس کے مفاد پرست حکمران جس مرضی سمت میں چاہیں موڑ دیں۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ آج ہماری پہچان ایک بے ایمان، کرپٹ، چور، ذخیرہ اندوز، منافع خور اور ملاوٹ خور، ناپ تول میں کمی کرنے والا، 2نمبر اور جعلی اشیاء فروخت کرنے والے کے طور پر مشہور ہے اور ایسی قومیں تو کبھی ترقی نہیں کرتیں جس کا واضح ثبوت قانون کی بالادستی کے معاملے میں پاکستان کا دنیا کے بدترین ممالک کی فہرست میں شامل ہونا ہے جبکہ نیپال، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ یاد رہے کہ ورلد جسٹس پروجیکٹ رول آف لاء انڈیکس 2021ء میں پاکستان 139ممالک میں 130ویں نمبر پر ہے جبکہ ادھر سپریم کورٹ نے انصاف میں پاکستان کے 128ویں نمبر پر ہونے کی ذمہ داری وکیل اور ججز پر ڈال دی ہے۔ اسی طرح عوام کا دم بھرنے والے دونوں ہاتھوں سے عوام کو بڑے دھڑلے سے لوٹ رہے ہیں اور ماہانہ ایک لاکھ لٹر سے زائد پٹرول مفت لے کر خالی خزانے کو مزید خالی کررہے ہیں۔
تاہم اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مقامی برانڈز نے اپنی کوالٹی پر کمپرومائز کرلیاہے اور وہ اشیاء جو مقامی طور پر تیار ہوتی ہیں ان میں سے زیادہ تر خانہ پری کے لئے استعمال کی جاتی ہیں اورایسے میں عوام برانڈڈ اورغیرملکی اشیاء خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ چلو پیسے خرچ کرنے ہیں تو ایک دفعہ زیادہ خرچ کرکے کم از کم دیرپا اورپائیدار چیز تو حاصل کرلی جائے۔ پاکستان میں آجکل جو دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے اس میں کسی کا کوئی نقصان نہیں ہورہا بلکہ عوام کی ایسی درگت بن رہی ہے کہ کوئی سننے والا ہی نہیں۔ اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ پاکستان جب تک مقامی پراڈکٹس خریدنے کے اصول پر عمل نہیں کرے گا اس وقت تک ترقی ایک خواب ہی رہے گا اور اس کے لئے اوپر یعنی صدر اور وزیراعظم سے اس سلسلے کو شروع کیا جانا چاہیے خاص طور پر اس وقت جب وزیراعظم عمران خانپاکستان کا قومی لباس شلوار قمیص پہن کر اپنے کلچر اور ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں تو انہیں اپنے کھانے پینے سے لے کر دیگر اشیاء بھی مقامی طور پر تیار کردہ استعمال کرکے پروموٹ کرنا چاہیے اور لوگوں کو یہ باور کروانا چاہیے کہ دوسروں کی معیشت کو سہارا دینے سے بہتر ہے کہ اپنے لوگوں کو پروموٹ کریں اور ایسا صرف اس وقت ہوگا جب ہم اپنی اشیاء کی کوالٹی کو بہتر بنائیں گے اس لئے ضروری ہے کہ مغربی ممالک کی مادی ترقی کو دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے اپنی اقدار، اسلاف، ماضی اور دین پر فخر کیا جائے اور اپنی زندگیوں کو دین کے مطابق گزار کر سہل بنایا جائے اور مقامی طور پر تیار کردہ اشیاء استعمال کے رواج کو پروان چڑھایا جائے۔ اگر ہم نے ایسا کرلیا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ