نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اور قصہ ایک بیان حلفی کا||حیدر جاوید سید

سیاسی عمل میں مخصوص مفادات کے حصول کے لئے عدالتوں کو متنازعہ بنانے کے حوالے سے (ن) لیگ کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔ اپنے حق میں فیصلے لینے ہوں یا سیاسی مخالفین کو سزائیں دلوانی ہوں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ہاں اتفاقات بہت ہوتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ ” اتفاقات کے سوائے دہر میں رکھا کیا ہے ” تو یہ کچھ غلط بھی نہیں البتہ یہ اتفاقات ہوتے صرف میاں نواز شریف کے لئے ہیں اب تازہ اتفاق دیکھ لیجے جس نے گزشتہ تین دنوں سے ات اٹھا رکھی ہے یہ اتفاق ایک بیان حلفی کی صورت میں سامنے آیا جس نے بیان حلفی دیا وہ صاحب رانا شمیم کسی وقت مسلم لیگ ن لائر ونگ سندھ کے نائب صدر تھے میمو سکینڈل میں نون لیگ کے وکلا میں شامل رہے ان کے صاحبزادے پنجاب میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بھی ان صاحب کے بعض امور پر نون لیگ کے وفاقی وزیر برجیس طاہر سے دوستی و ساجھے داری تھی طویل خدمات کے صلے میں نون لیگ نے انہیں گلگت بلتستان کا جج اور پھر چیف جج لگایا تب یہ اعتراض ہوا تھا کے کیسے کسی غیر مقامی شخص کو چیف جج بنادیا گیا لیکن یہاں اعتراض نہیں اتفاقات کا دور دورہ رہتا ہے رانا شمیم آجکل لندن میں مقیم ہیں تین دن قبل انہوں نے ایک بیان حلفی دیا جس نے نہ صرف ایک تنازع پیدا کردیا بلکہ اس سے کئی سوالات نے جنم لیا ۔ وہ کہتے ہیں نا سیاست میں سب چلتا ہے جنگ اور محبت میں سب جائز ہے بس یہی بات سمجھ لیجے خیر اب آئیے اصل موضوع پر اور وہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے لندن میں دیئے گئے بیان حلفی اور خبر کی اشاعت پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کی ابتدائی سماعت میں فریقین کو تفصیلی بیانات جمع کرانے کے حکم کے ساتھ سماعت 26نومبر تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔ قبل ازیں دوران سماعت سابق چیف جج رانا شمیم کے پیش نہ ہونے پر پوچھے گئے سوال پر ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ اپنے چچا کی وفات کی وجہ سے مصروف ہیں۔ سابق چیف جج کا بیان حلفی ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی سزاوں کے خلاف اپیل کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہونے والی تھی۔ بیان حلفی میں الزام لگایا گیا کہ جولائی 2018ء میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے رجسٹرار کے ذریعے ایک جج کو حکم دیا کہ ’’نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کی ضمانتیں عام انتخابات سے قبل منظور نہیں ہونی چاہئیں‘‘۔ اس بیان حلفی سے پیدا ہوئی صورتحال میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ادھر وزیراعظم عمران خان سمیت متعدد وفاقی وزراء یہ کہہ رہے ہیں کہ (ن) لیگ عدالتوں پر اثرانداز ہونے کی تاریخ رکھتی ہے اس نے اپنے لئے گڑھا کھودا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق سابق چیف جج کا بیان حلفی سزاوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرنے والی عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے جبکہ شریف خاندان بیان حلفی کو صبر کا نتیجہ اور اللہ کا انصاف قرار دے رہا ہے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی اس بیان حلفی کی بدولت خاصی گرماگرمی دیکھنے میں آئی۔ قومی اسمبلی میں (ن) لیگ کے رکن خواجہ آصف کی تقریر کے بعض حصے کارروائی سے حذف کرانے کے لئے وزیراعظم کے مشیر پارلیمانی امور نے سپیکر سے باقاعدہ درخواست کی۔ بیان حلفی دینے والے سابق چیف جج کا اصرار ہے کہ ان کا بیان درست ہے اور وہ اس پر قائم ہیں جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اس الزام کو لغو قرار دے رہے ہیں ۔ منگل کو عدالت میں پیش نہ ہونے کی وجہ رانا شمیم کا بیرون ملک ہونا تھا لیکن ان کے وکیل نے خاندان میں ہوئے ایک سانحہ ارتحال کے بعد کی رسومات کو پیشی کے مانع قرار دیا۔ اصولی طور پر تو یہ تضاد ہی بیان حلفی کی سچائی پر کاری ضرب ہے۔ عدالت میں عدم حاضری بارے بیان کردہ وجہ سے جس تضاد کی نشاندہی ہوتی ہے اس پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عدالت میں کی گئی غلط بیانی سے بیان حلفی دینے والی شخصیت کی اخلاقی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی کے خلاف کرپشن کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججز کے حوالےسے (ن) لیگ کی جارحانہ مہم نئی ہرگز نہیں قبل ازیں بھی ایک جج کی ویڈیو سے تنازع کھڑا کیا گیا تھا۔
سیاسی عمل میں مخصوص مفادات کے حصول کے لئے عدالتوں کو متنازعہ بنانے کے حوالے سے (ن) لیگ کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔ اپنے حق میں فیصلے لینے ہوں یا سیاسی مخالفین کو سزائیں دلوانی ہوں، ہر دو مواقع پر (ن) لیگ ماضی میں جو کچھ کرتی آئی یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ حکومت اور ریاست کے محکموں اور اداروں کو ذاتی ملکیت کے اداروں کی طرح چلانے کی خواہش کی وجہ سے جہاں (ن) لیگ کے سربراہ کو تین بار وزارت عظمیٰ سے محروم ہونا پڑا وہیں ماضی میں وہ 10سالہ معاہدہ جلاوطنی کرکے ملک چھوڑ گئے اور اب اپنی بیماری کا علاج کروانے کے لئے بیرون ملک صحت مند شخص کے طور پر مقیم ہیں۔ سابق چیف جسٹس کے بیان حلفی نے ملک کی سیاست میں ایک طوفان برپا کردیا ہے۔ ایسا ہی طوفان ماضی میں اس وقت برپا ہوا تھا جب (ن) لیگ کی کوششوں سے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ دو حصوں میں بٹ گئی اور عدالت کی کوئٹہ رجسٹری نے اپنے ہی چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف فیصلہ سنادیا تھا۔ ووٹ کو عزت دو کے سیاسی اصول کو اپنی انقلابی جدوجہد کے طور پر پیش کرنے والی جماعت کے قائدین مفادات کے حصول کے لئے کس حد تک جاسکتے ہیں یہ ماضی کی طرح اب بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہا۔ حالیہ معاملہ میں جس اہم بات کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ احتساب عدالتوں سے ہونے والی سزائوں کے خلاف اپیل کے فیصلے کی تاریخ ہے۔ فیصلے کی تاریخ اور وقت اور اس وقت کے چیف جسٹس کی نجی دورے پر گلگت بلتستان روانگی اور بیان حلفی دینے والے اس وقت کے چیف جج سے ملاقات کی تاریخ اور وقت ہر دو کا باریک بینی سے جائزہ لے کر عام مقدمات کی تفتیش کرنے والا پولیس کا کوئی بھی تفتیشی افسر اس ’’گھٹالے‘‘ کی نشاندہی کرسکتا ہے جس میں خود بیان حلفی دینے اور دلوانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ (ن) لیگ کا حامی میڈیا پچھلے چند دنوں سے ’’فتح مبین‘‘ چند قدموں پر ہے کی راگنی چھیڑے ہوئے تھا کہ سزائوں کے خلاف اپیل کی سماعت کی تاریخ سے قبل جاری کئے جانے والے بیان حلفی نے نیا تنازع کھڑا کردیا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔ سیاسی و سماجی اور قانونی حلقوں کا اس معاملے پر کسی تاخیر کے بغیر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ بجا طور پر درست ہے اس سارے معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو اور یہ کہ قوم بھی اس حقیقت سے آگاہ ہوسکے (ن) لیگ نے اچانک بیان حلفی والا راکٹ داغنا کرنا کیوں ضروری خیال کیا؟ اسی طرح یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ ذرائع ابلاغ کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ پوراسچ سامنے آسکے ۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ سابق چیف جج کے بیان حلفی سے پیدا ہوا تنازع بحران کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے ہمزاد فقیر راحموں تو کہتے ہیں ” اِک بحران اور سہی ” لیکن بحران سے بچ لیا جائے تو مناسب ہوگا وجہ یہ ہے کہ پانامہ میں اقامہ کی سزا پر قبل ازیں سوالات تھے اس بیان حلفی نے بہر طور مسائل پیدا کر دیئے ہیں اس لیئے جذباتی بیان بازی پکڑ لو ماردو کے جنون سے بگاڑ پیدا ہوگا مناسب یہی ہے کہ ایک آزاد کمیشن اس سارے معاملے کی تحقیقات کرے تاکہ حقیقت سامنے آئے یہی سب کے لئے بہتر بھی ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author