سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز نے دعویٰ کیا ہے کہ ووٹنگ مشین سے متعلق قانون اگلے ہفتے منظور کروالیا جائے گا۔ ادھر وفاقی حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے معاملے پر اتحادی جماعت ق لیگ کے تحفظات دور کردیئے ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے حوالے سے شبلی فراز کے دعوے میں کتنی سجائی ہے اس کا اندازہ تو چند دنوں میں ہوجائے گا لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ اپوزیشن نے قانون سازی کے معاملے میں حکومت کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سپیکر کو لکھے گئے خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ حکومت چیئرمین نیب کی تقرری، قوانین کی خلاف وزی چاہتی ہے۔ شخصی بنیادوں پر قانون سازی میں ساتھ نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستانی سیاست میں آجکل جو دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے اس کے باعث یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ سیاست میں جاری کھینچاتانی میں کسی نہ کسی کا سر ضرور جائے گا۔ ادھر انصار عباسی کی سٹوری نے بھی خاصا اودھم مچایا ہوا ہے جس کے بعد مسلم لیگ ن نے نوازشریف اور مریم نواز کی سزا کو یکسر ہی مسترد کردیا ہے اور برملا مسلم لیگ ن کے کارکن یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے موقف کو تقویت ملی ہے۔ ادھر مہنگائی کے ہاتھوں معاملات جس تیزی کے ساتھ حکومت کے ہاتھوں سے نکل رہے ہیں اس کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقتدار آہستہ آہستہ تحریک انصاف کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے اس لئے تو آج معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ کسی کو کوئی سمجھ نہیں آرہی بلکہ بعض حکومتی وزراء تو گھبرائے ہوئے سے نظر آتے ہیں کہ وہ کدھر کھڑے ہیں۔ اسی لئے تو بوکھلاہٹ میں ایسے عجیب و غریب اور مضحکہ خیز بیانات دیتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ ہنسیں یا روئیں جیسا کہ فواد چودھری تو چینی کی قیمت میں کمی کی کوڑی بڑی دور سے لائے ہیں اور یہ دعویٰ کردیا ہے کہ چینی کی قیمت میں 40روپے سے بھی زائد کمی ہوئی ہے۔ اب عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ ہمارے حکمران طبقہ جانے کس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ انہیں حقائق نظر ہی نہیں آرہے یہی وہ اصل حقیقت ہے جو آنے والے دنوں میں حکومت کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
آہستہ آہستہ اقتدار حکومت کے ہاتھوں سے سرک رہا ہے کہ اب تو اتحادی بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ فہمیدہ مرزا وفاق سے ناخوش ہیں تو ایم کیو ایم کے خالد مقبول بھی کوئی حکومت کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ خود حکومتی وزراء بھی اپنی نااہلی برملا تسلیم کررہے ہیں کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگرایک لمحے کے لئے عمران خان سوچیں تو یہ اندازہ لگانا ان کے لئے کوئی خاص مشکل نہیں ہوگا کہ الیکٹبلز کو انہوں نے ٹکٹیں دی تھیں چونکہ بہت سے لوگ دوسری سیاسی جماعتوں سے ہوا بدلنے پر گھس آئے تھے اب حکومت کی ناقص کارکردگی کو دیکھ کر وہ پرندے اڑانے بھرنے کی تیاریاں کرچکے ہیں اسی لئے تو کوئی حکومتی کارکردگی کے حوالے سے بیانات نہیں دے رہا بلکہ خاموشی کے ساتھ ایک سائیڈ پر ہوتے جارہے ہیں اور اپنی نجی محفلوں میں عمران خان پر خوب گرجتے اور برستے ہیں اور مائنس عمران کی بات بھی بڑے دھڑلے سے کرتے ہیں کہ ایک ضدی عمران نے حکومت کو کمزور سے کمزور تر کردیا ہے۔ یہی وہ دبائو ہے جس میں آجکل عمران خان بھی ہمیں محسوس ہوتے ہیں۔ اطلاعات تو کچھ یہ بھی ہیں کہ عمران خان نے اپنے قریبی حلقوں پر واضح انداز میں یہ پیغام بھی دیا کہ اگر انہیں اقتدار سے الگ کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ اسمبلیاں توڑنے میں لمحہ بھر کی بھی تاخیر نہیں کریں گےاسی دبائو کوبھانپتے ہوئے حکومت میں موجودفصلی بٹیروں نے بھی اپنی صف بندی شروع کردی ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ حکومت کی ناقص کارکردگی کے باعث اپوزیشن تگڑی ہوگئی ہے اسی لئے تو وہ مہنگائی کی آڑ لے کر حکومت گرانے کی کوششوں میں جُتی ہوئی ہے۔ اس موقع پر سب سے اچھی بات بلاول بھٹو نے کی کہ گھٹتی آمدنی اور بڑھتی مہنگائی کے بحران کو روکنے کے لئے عمران خان عملی اقدامات کریں یا گھر جائیں۔ بلاول کا یہ بیان جمہوریت اور جمہوری سوچ کا علمبردار ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب سیاسی جماعتیں حکومت کو گرانے کے لئے دبائو ڈال رہی تھیں ایسے میں صرف بلاول ہی تھے جنہوں نے جمہوری انداز میں عدم اعتماد کے ووٹ کی بات کی۔ بلاول کی پرورش چونکہ ایک جمہوری گھرانے میں ہوئی ہے اس لئے وہ دیگر سیاستدانوں کے مقابلے میں زیادہ میچور سیاست کرتے ہیں۔
اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ عمران حکومت آج جتنے دبائو میں ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی اسی لئے تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اناڑی ایک مرتبہ پھر حکومت کو بلیک میل کرنے کے لئے میدان میں آگئے ہیں۔ اگر یہاں مسلم لیگ ق کی بات کی جائے تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ وہ ہمیشہ اپنے مفادات کی اسیر رہی ہے اور جب بھی اس کے مفادات کو زک پہنچتی ہے تو وہ روٹھی ہوئی محبوبہ کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ مسلم لیگ ق چونکہ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے قاصر ہے اسی لئے تو ہمیشہ اپنے مفادات کا بھی طواف کرتی نظر آتی ہے۔ اب تاریخ مسلم لیگ ق کو کن الفاظ میں یاد کرے گی اس کا فیصلہ مورخ خود کرے گا۔ یہاں پر بات چونکہ تحریک انصاف کی حکومت کے مستقبل کی ہورہی ہے تو اقتدار عمران کے ہاتھ سے جس تیزی سے سرک رہا ہے اس کے یوں تو کئی ذمہ داران ہیں لیکن اس کے عمران خان خود بہت بڑے ذمہ دار ہیں جن پر عوام نے آنکھیں بند کرکے اعتماد کیا لیکن وہ تو ہر موقع پر اپنے اتحادیوں سے اقتدار کے لئے بلیک میل ہوتے رہے اور اب بھی کچھ ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ آئی ایم ایف کے منہ جو خون لگ گیا ہے اس کا آج ایک ہی ایجنڈا نظر آتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو دیوالیہ ڈیکلیئر کرکے اس کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنے کا جواز تراشا جائے۔
عمران خان جو ایک جارحانہ مزاج رکھنے والے سیاستدان ہیں اب ’’ان دیکھی مجبوریوں‘‘ کے ہاتھ مکمل طور پر یرغمال ہوچکے ہیں اور ان کے دائیں بائیں بیٹھے لوگ بھی انہیں صحیح معلومات تو درکنار انہیں اصل حقائق سے باخبر نہیں کررہے ہیں جس کا خمیازہ ان کی عوام میں پذیرائی میں یکدم کمی کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کے لئے بڑی جدوجہد کی آج وہ اپنے اس فعل پر برملا معافیاں مانگتے نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں اگر عمران خان کے پچھلے بیانات کی طرح تمام تر ملبہ سابقہ حکمرانوں پر ڈالیں گے تو ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا خاص طورپر اس وقت جب انہیں اقتدار میں آئے ساڑھے تین برس سے زائد کا عرصہ ہوگیاکیونکہ یہ وقت کسی بھی ملک کی معیشت کی سمت کو درست کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہاں اول تو معیشت کی کوئی سمت سرے سے تھی ہی نہیں اگر تھی تو عمران حکومت نے اس کو ایسے کچوکے لگائے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ کچھ ایساہی معاملہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا ہے کہ جس پر حکومت نے اپوزیشن تو کیا اتحادیوں کو بھی اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا جس کا نتیجہ سب کی ناراضگی کی صورت میں نظر آیا۔
تاہم جہاں تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا تعلق ہے تو اس پر سیاسی جماعتوں کے جائز تحفظات کو دور کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیےلیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ پاکستان میں موجود سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ ملک میں صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد نہ ہوا کیونکہ ہر حلقے میں 15سے 20ہزار جعلی ووٹوں کے اندراج کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بن چکی ہیں ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت کم از کم انتخابی اصلاحات کے اپنے ایجنڈے کے لئے بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں آتی تو آئندہ کسی کو عوام کے ووٹ چوری کرنے کی جرات نہ ہوتی مگر افسوس کہ حکومت نے اس حوالے سے اپنا ہوم ورک نہیں کیا جس کا خمیازہ عوام کو آئندہ الیکشن میں بھگتنے کا اندیشہ ہے۔ پی ڈی ایم لانگ مارچ سمیت تمام آپشنز استعمال کرنے کے لئے میدان عمل میں تو ہے تو دوسری طرف مہنگائی کا بے قابو جن بوتل میں بند ہونے کے لئے ہی تیار نہیں جبکہ خارجہ محاذ بھی خاصا گرم ہے اور پاکستان تنہائی کا شکار محسوس ہوتا ہے۔ اگر یہاں پر حکومت کی کارکردگی کی فہرست یہاں مرتب کی جائے تو اس میں مہنگائی کے سوا کچھ قابل ذکر نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ اگر عمران خان صحیح معنوں میں عوام کی نظروں میں سروخرو ہونا چاہتے ہیں تو اقتدار میں چمٹے رہنے کے بجائے عوام کو بلاخوف و خطر ریلیف فراہم کریں۔ منافع خور ہو یا ذخیرہ اندوز یا پھر ملک دشمن طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے عناصر، سب کو بیک وقت دنیا کے سامنے بے نقاب کریں تاکہ عوام کو صحیح اور غلط کی تمیز کرنے میں آسانی ہو اور ملک دشمن عناصر اپنی موت آپ مرجائیں، یہی وقت کی پکار ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ