نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مولانا ہدایت الرحمان ” بلوچیت “ کی علامت||عزیز سنگھور

اس اطلاع پر میں (راقم) نے روزنامہ آزادی کوئٹہ میں ” سمندر برائے فروخت “کے عنوان سے ایک کالم لکھ دیا ۔ جیساں ہی کالم کی اشاعت ہوئی۔ اس صبح کوئٹہ میں آزادی کے دفتر میں پوچھ گچھ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گوادر کو حق دو تحریک کے بانی اور سربراہ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ مظلوم اور محکوم عوام کی آواز بن چکے ہیں ۔ وہ ایک شخص سے ایک تحریک کا روپ دھار چکے ہیں ۔ وہ قومی جدوجہد کی علامت بن چکے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ان کی ایک آواز سے پورے بلوچستان کا ہر فرد اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ انہوں نے گوادر میں ایک تاریخی جلسہ عام کرکے ایک تاریخ رقم کردی۔ اب انہوں نے گوادر کے جی ٹی روڈ پر سینکڑوں افراد کے ساتھ دھرنا دیا ہے۔ یہ دھرنا مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا۔
اب تک ان کے اٹھارہ مطالبات میں صرف تین مطالبات منظور کئے گئے ہیں۔ جن میں گوادر میں لائسنس یافتہ تین وائن شاپس کی بندش، ڈی جی فشریز کا آفس کوئٹہ سے گوادر منتقل کرنا اور گوادر یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی تقرری شامل ہیں۔ جبکہ چوتھے مطالبہ پر عملدرآمد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جن میں کوسٹل ہائی وے اور آر سی ڈی روڈ پر قائم غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ شامل ہیں۔
دیگر مطالبات کچھ یوں ہیں۔ سمندر میں چینی جہازوں سمیت ملکی ٹرالرز مافیا کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ ماہی گیروں کو آزادی کے ساتھ سمندر میں مچھلی کا شکار کرنے، انٹری ٹوکن اور وی آئی پیز کے نام پر ماہی گیروں کی تذلیل بند کی جائے۔
گوادر میں منشیات کے اڈوں کا خاتمہ کیا جائے۔ مغربی اور مشرقی بلوچستان کو الگ کرنے والی گولڈ سمتھ لائن پر تجارت پر عائد پابندی کا خاتمہ کیا جائے۔ ایران سے بارڈر ٹریڈ اور اشیاء خوردو نوش کی نقل و حمل کو آسان کیا جائے۔ ٹوکن سسٹم کا خاتمہ اور ایف سی حکام کے عمل دخل کا خاتمہ کیا جائے۔ محکمہ تعلیم کے نان ٹیچنگ اسٹاف کی آسامیوں کے آرڈر فوری طور پرجاری کیے جائیں۔ ضلع گوادر میں جعلی ادویات کے کاروبار پر پابندی عائد کی جائے۔ جعلی ادویات کے کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ضلع گوادر کو آفت زدہ قرار دیا جائے اور شہریوں کے یوٹیلٹی بلز کے بقایا جات معاف کیے جائیں۔
کوسٹ گارڈ، کسٹم اور ایم ایس کی جانب سے ضلع بھر میں ضبط کی گئیں گاڑیوں، کشتیوں اور اسپیڈ بوٹس کو واپس کیا جائے۔
ضلع میں پانی کے بحران کا خاتمہ کیا جائے۔متاثرہ علاقوں کو ہنگامی بنیادوں پر فوری طور پر پانی فراہم کی جائے۔ چائنا اورسیز ہولڈنگ کمپنی میں گوادر اور بلوچستان کے دیگر اضلاع کے افراد کو غیر مقامی افراد کی نسبت کم تنخواہ اور مراعات دی جاتی ہیں، مقامی افراد کی تنخواؤں میں اضافہ کیا جائے۔
دربیلہ متاثرین کمیٹی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی ضلعی انتظامیہ پابندی کرے۔ ایکسپریس وے متاثرین کو مناسب معاوضہ دیا جائے۔
ضلع گوادر میں سمندری طوفان اور ٹرالر مافیا کے حملے سے املاک اور کشتیوں کو نقصانات پہنچا ہے۔ اس نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔ جبری لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے، گوادر کے رہائشی قاسم ولد ھاشم کو خصوصا فوری طور پر بازیاب کیا جائے۔ اور حق دو تحریک کے سربراہ ہدایت الرحمن اور نوجوانوں پر قائم تینوں مقدمات واپس لیے جائیں اور فورتھ شیڈول کا لیٹر بھی واپس لیا جائے۔
مولانا ہدایت الرحمان بلوچ، جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔ حالانکہ جماعت اسلامی پاکستان نے کبھی بھی نہ قوم پرستانہ سیاست کی اور نہ ہی ریاستی اداروں کے سامنے اس طرح للکارا۔ جماعت اسلامی نے ہمیشہ وفاق کی مضبوطی کی بات کی اور صوبائی خودمختیاری کے حوالے سے خاموشی اختیار کی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کے مرکزی قیادت مولانا صاحب کے اس سخت موقف سے خوش نہیں ہونگے تاہم مولانا صاحب کے سامنے خاموشی اختیار کرنا وقت کی نزاکت ہوسکتی ہے ۔ کیونکہ اب جماعت اسلام کو مولانا صاحب کی ضرورت ہے۔ مولانا صاحب کو جماعت اسلامی کی ضرورت نہیں ہے۔ مولانا صاحب نے اپنی صلاحیتوں اور اہلیتوں کی وجہ سے بلوچ عوام میں ایک اعلیٰ مقام بنایا ہے۔ بلوچ معاشرے میں وہ ایک قد آور شخصیت ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔ اب ان کی شخصیت کو بلوچ قوم احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ہر بلوچ ان کی آواز کو لبیک کرتا ہے۔ حالانکہ میں شخصیت پرستی کے خلاف ہوں تاہم شخص یا فرد کو ان کے قول و فعل سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے کردار کو جانچنے کی ضرورت ہے۔ اس کا کردار ایک آئینے کی طرح صاف اور ستھرا ہے۔ جس کی وجہ سے مولانا صاحب دور حاضر میں ایک حقیقت بن چکے ہیں ۔ اس حقیقت کو ماننا پڑےگا۔ آج بلوچستان کا سمندر اور ساحلی پٹی کو چین کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا ہے۔ بلوچ عوام کے وسائل پر چینی حکام کا قبضہ ہے۔ حتیٰ کہ چینی حکام صوبائی اور وفاقی کتھ پتلی حکومتوں کے سامنے جواب دے نہیں ہیں۔ ان سے پوچھے بغیر فیصلہ کرلیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال کچھ یوں ہے۔
گزشتہ سال اگست کے مہینے میں مجھے (راقم) پاکستان فشرفوک فورم کے جنرل سیکریٹری سعید بلوچ نے بتایا کہ تقریبا چالیس سے پچاس سے زائد چائینیز جہازوں کو سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں ماہی گیری کرنے کے لئے پہنچ گئے ہیں۔ اور وہ اس وقت کراچی کی بندرگاہ میں لنگرانداز ہیں۔ حتیٰ کہ اس کی اطلاع نہ سندھ اور بلوچستان حکومتوں کو دی گئی اور نہ ہی وفاقی وزیر بحری امور علی حیدر زیدی کو دی گئی۔ جب ان فیکٹری جہازوں کو لایا گیا۔ اس کے بعد سویلین حکومت کے حکام سے صرف ان پر دستخط لئے گئے۔
اس اطلاع پر میں (راقم) نے روزنامہ آزادی کوئٹہ میں ” سمندر برائے فروخت “کے عنوان سے ایک کالم لکھ دیا ۔ جیساں ہی کالم کی اشاعت ہوئی۔ اس صبح کوئٹہ میں آزادی کے دفتر میں پوچھ گچھ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ روزنامہ آزادی کوئٹہ کے ایڈیٹر آصف بلوچ کو کہا گیا کہ یہ ایک من گھڑت خبر ہے۔ اس کی سرکاری طور پر اسلام آباد اور صوبائی حکومت نے تصدیق نہیں کی ہے۔ آپ کے پاس یہ خبر کہاں سے آگئی ہے؟۔ تاہم ایڈیٹر کے پاس ان جہازوں کی موجودگی کی فوٹیجز اور دیگر دستاویزات موجود تھے۔ جو مجھے (راقم) پاکستان فشرفوک فورم کے جنرل سیکریٹری سعید بلوچ نے دیئے تھے۔ اس خبر کی تصدیق کچھ مہینے بعد ضلع گوادر میں ہفت تلار جزیرے کے قریب چینی جہازوں کی ویڈیو مقامی ماہی گیروں نے سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ اس کے بعد یہ ایک ایشوں بن گیا۔ جو آج تک چل رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو فشری ایک صوبائی معاملہ ہے۔ وفاقی ادارے صوبائی خودمختاری کی خلاف ورزی کرکے سارے معاملات اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں۔ پالیسی سازی میں سندھ اور بلوچستان کے ایوانوں میں موجود نام نہاد عوامی نمائندوں سے مشاورت نہیں کی جاتی ہے۔ اپنی مرضی اور منشا کی پالیسیاں اپنائی جارہی ہیں۔
گوادر کو حق دو تحریک کے بانی اور سربراہ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے بلوچستان کے ساحل و وسائل پر بلوچ قوم کی حکمرانی کی جدوجہد کا علم اٹھایا ہوا ہے۔ یہ ایک کٹھن راستہ ہے۔ لیکن وہ اس کٹھن راستے کو عوامی طاقت کے ذریعے پار کرلینگے ۔

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ

عزیز سنگھور کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author