مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نجات دہندگی کا سراب||فضیل اشرف قیصرانی

سو لوک دانش کی سلامتی کہ لوک دانش چور تو کُجا کالے چور کو بھی تفویض کر دیتی ہے حقِ حاکمیت ۔خدا مگر اجتماعی دانش کے سراب سے بچاۓ دھرتی واسوں کو کہ اجتماعی دانش اجتماع کی دانش نہیں بلکہ اجتماع پر مسلط کی گئ افراد کی دانش ہے۔۔۔

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں نسبتاً مہنگاہی اب بھی کم ہے،لوگ ایماندار قیادت چاہتے ہیں،جب حاکمِ وقت درست ہو تو جلد یا بدیر حکومت کے معاملات بھی درست ڈگر پہ چل نکلتے ہیں،کیا کیجئیے کہ پورا معاشرہ ہی کرپٹ ہے،یہ لوگ جمہوریت ڈیزرو ہی نہیں کرتے،جمہوریت ہمارے جیسے ملکوں کے لیے نہیں ہے اور اس طرح کے تمام چالو جملے پاکستان میں تکرار کے ساتھ سماعتوں سے ٹکراتے رہتے ہیں۔
ان باتوں کے جواب میں کچھ کہا جاۓ تو معاشرے کی اجتماعی دانش اسے یکسر مسترد کر دیتی ہے۔یہ اجتماعی دانش آخر کیونکر پروان چڑھی کہ یہ ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ سالہا سال کے دماغوں میں اُنڈیلے جانے والے پروپیگنڈہ کے نتیجے میں جو تصویر بننی تھی وہ کم و بیش یہی تھی جو آج معاشرے کی اجتماعی دانش کی ہے۔
اس اجتماعی دانش میں ایک نجات دہندہ اور نجات دہندگی کا سراب بھی تھا کہ جب تواتر سے کہا گیا کہ ملک و قوم کو بس ایک بار ایک مسیحا مل جاۓ تو یہ ملک اور قوم کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے مقابلے میں بطور نمونہِ کردار پیش کی جا سکتی ہے کہ ہم ہی ہیں وہ چنیدہ جو خاک سے افلاک کے سفر میں دنیا کی راہنمائ کا فریضہ سرانجام دیں گے۔۔۔
اس سراب میں کئ نسلیں گزر گئیں مگر نجات دہندہ کا ظہور نہ ہوا۔مہینے بھر کی بے فکری والے ایزی لوڈ سے ضرور کچھ نجات دہندہ میسر ہوۓ مگر مہنیے بھر کا ریچارج مہینہ بھر ہی چلنا تھا سو مہینہ ختم،ریچارج ختم اور سراب ختم۔یہی کچھ گزشتہ انتخاب میں ہوا کہ نجات دہندہ کے ظہور کی تیاریاں شروع ہوئیں،تیاریاں بر آئیں اور پھر نوے روز کے مختصر وعدے کے بعد چھ ماہ کا اثبات مانگا گیا اور پھر وہی ہوا،یعنی سراب آشکار ہوا اور نجات دہندگی اور مسیحائ کا بخار اترنے لگا۔۔۔۔
اجتماعی دانش دل ہی دل اس سراب کو تسلیم کیے بیٹھی ہے کیونکہ اس اجتماعی دانش کے خالق ہمارے میڈیا پرسنز اب قوم سے معافیاں مانگتے نظر آتے ہیں،جب کے یہ میڈیا پرسنز روزِ اول سےواقفِ حال تھے کہ یہ لوگ قوم میں شعور کے خود ساختہ منصبِ تقسیم کنندہ پر فائز ہیں۔حالات مگر نجات دہندگی میں اب کے اس نحج پر آ گۓ کہ چھوٹی موٹی رفو گری کا دور ہی نہیں بچا اب کے سواۓ شامیانے سینے والے کے کوئ اس قابل ہی نہیں جو نجات دہندگی کا دفاع کر سکے۔۔۔
پِس مگر وہ رہا ہے جو وارث ہے،زد تلے وہ ہے جو مالک ہے،چھلنی وہ ہے کہ جو مستقل مقیم ہے اور حالات کا مارا وہ ہے جس کے پاس راہِ فرار نہیں کہ وہ اس زمین کا فرزند ہے۔وہ ہمیشہ سے اس نجات دہندگی کے سراب میں پِستا چلا آ رہا ہے۔اسے نہ تو کھبی فیصلے کا اختیار ملا کہ اسکے سیاسی شعور کو یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ تم نہیں جانتے،جب کھبی اس نے کہا کہ نہیں،میں بھی جانتا ہوں تو اسکے دماغ کو ان میڈیا پرسنز کے شکنجے میں کس دیا گیا کہ تم اپنی بصیرت چھوڑو انکی بصیرت پہ تکیہ کرو کہ یہ جانکار ہیں،وہ اگر ان سے بچ نکلا تو اسکے آگے تاریخ کے وہ ردی حوالے رکھ دیے گۓ کہ جو کارِ سیاست میں نت نۓ رنگ میں روز تیار ہوتے ہیں،کوئ یہاں بھی قابو نہ آیا تو پھر یہ تو تھا ہی تھا کہ اگر یہ نہیں قبول میاں توتیاری پکڑو اور جن کے گیت گاتے ہو وہاں کو رخصت ہو لو۔۔
وطن کا فرزند مگر کہاں جاۓ کہ اسکا جینا مرنا،آگ،پانی،دشمنی،دوستی سب یہیں ہے۔وہ نفع نقصان سے بالاتر شعوراً یہ سمجھتا ہے کہ میرا جینا مرنا سب اسی وطن میں ہے۔وہ تو مدفون ہونے کی خواہش بھی اپنے آبائ قبرستان میں رکھتا ہے کہ اسکے لاشعور اور شعور دونوں کا یہ فیصلہ ہے کہ میں دھرتی واس ہوں اور میں اس وطن کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا،سو وہ تھا،وہ ہے اور وہ رہے گا۔
اب کے مگر جہاں گزشتہ سراب نۓ سراب کے آنے کے بعد دب جایا کرتے تھے شاید ممکن نہ رہے۔اب کے دھرتی واس جانتا ہے کہ نجات دہندگی سواۓ سراب کے کچھ نہیں۔اسکا نجات دہندہ صرف اسکا سیاسی فیصلہ ہے۔اگر وہ یہ فیصلہ درست کرے گا تو تھبی اسکے اور اسکی دھرتی کے دن پھریں گے۔دھرتی واس چونکہ اجتماعی دانش سے زیادہ لوک دانش کو مانتا ہے تو لوک دانش کا فیصلہ ہمیشہ سے یہی چلا آ رہا ہے کہ،میرا فیصلہ میں خود کروں گا،اگر میں نے یہ حق کسی اور کو تفویض کرنا ہے تو وہ میرا فیصلہ ہے چاہے میں یہ حق کسی “کالے چور “ کو ہی کیوں نہ کردوں تفویض ۔
سو لوک دانش کی سلامتی کہ لوک دانش چور تو کُجا کالے چور کو بھی تفویض کر دیتی ہے حقِ حاکمیت ۔خدا مگر اجتماعی دانش کے سراب سے بچاۓ دھرتی واسوں کو کہ اجتماعی دانش اجتماع کی دانش نہیں بلکہ اجتماع پر مسلط کی گئ افراد کی دانش ہے۔۔۔

%d bloggers like this: