گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
ایک انگریز نے لکھا ہے کہ (ہمارا دیس بر صغیر پاک و ہند ) ایک زمانے سونےکی چڑیا تھا جہاں کوئ بھیک نہیں مانگتا تھا۔ پھر انگریزوں نے اس کو لوٹنے کا منصوبہ بنایا اور 45 کھرب ڈالر لوٹ کے چلتے بنے۔
یہاں کا غریب سے غریب بندہ اپنی حلال کی کمائی پر گزارا کرتا مگر انگریزوں نے جو لوٹ کھسوٹ کی عادت اپنے چیلوں اور یہاں کے کالے حکمرانوں میں ڈالی وہ ہوس آزادی کے بعد آج تک ختم نہیں ہوئی۔ 74 سال سے ہمارے حکمران لوٹ کھسوٹ میں سب سے آگے ہیں۔وہ ارب پتی بن رہے ہیں قوم غیر ملکی قرضے اتارنے ۔مہنگائی کی چکی تلے پس رہی ہے ۔آج حکومت کی پالیسیوں سے امیر امیر تر ، اور غریب غریب تر بن رہا ہے۔ قوم کو لچھے دار تقریروں اور جذباتی نعروں پر در بدر کر دیا گیا۔ انگریز دولت لوٹ کر برطانیہ لے گیے ہمارے حکمران بھی قوم کے ہمدرد بن کر لندن اور یورپ سے آتے ہیں اور یہاں کی دولت لوٹ کر یورپ آسٹریلیا امریکہ دبئ لے جاتے ہیں۔لندن میں تو اکثر حکمرانوں نے مل کر پورا ایک سیکٹر بنگلوں اور فلیٹ کا خرید رکھا ہے جہاں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح رہتے ہیں اور باری باری حکومت کرنے آتے ہیں یا پھر ان کی لاشیں دفن کرنے ادھر آتی ہیں۔
وطن کا حال یہ ہے کہ بوڑھی عورتیں چند ٹکوں کے سرمائے سے مکئ کے دانے بھوننے۔تنور پر روٹیاں پکانے ۔گھروں میں ماسی کی مزدوری کرنے میں حلال کی روزی کما رہی ہیں اور ملک کا قرضہ بھی اپنے خون سے اتار رہے ہیں۔
شاکرشجاع آبادی نے انہی کے متعلق کہا تھا ؎
فکر دا سج ابھردا ہئے سوچیندیاں شام تھی ویندی۔
خیالیں وچ سکون اجکل گولیندیاں شام تھی ویندی۔
انھاں دے بال ساری رات روندین، بُھک توں سُمدے نئی۔
جنھاں دی کہیں دے بالاں کوں کھڈیندیاں شام تھی ویندی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر