دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماں جیسی ریاست|| آفتاب احمد گورائیہ

پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے، ہمارے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے جو میزائل ٹیکنالوجی سمیت ہر طرح کے جدید سامان حرب سے لیس ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم جتھوں کے آگے بے بس نظر آتے ہیں

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریاست کو ماں کا درجہ اس لیے دیا جاتا ہے کیونکہ جیسے بچوں کے لیے ماں پیار، محبت اور تحفظ کا استعارہ ہے اسی طرح ریاست اپنے عوام کے جان و مال اور حقوق کے تحفظ کی ضامن سمجھی جاتی ہے۰ جس طرح ایک ماں کے لیے اس کے تمام بچے برابر ہوتے ہیں اسی طرح ریاست کی نظر میں اس کے تمام شہری بغیر کسی رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق کے برابری کا درجہ رکھتے ہیں۰ دو تین سال پہلے نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کا ایک واقعہ رونما ہوا جس میں ایک جنونی شخص نے مسجد میں داخل ہو کر نمازیوں پر فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں کافی سارے نمازی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۰ بطور ریاست نیوزی لینڈ نے اس واقعہ پر جس طرح کے ردعمل کا مظاہرہ کیا وہ واقعی ایک مثال ہے۰ ایک اسلامی ریاست نہ ہونے کے باوجود جس طرح نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور وہاں کے شہریوں نے اپنے ملک میں بسنے والے مسلمان شہریوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا، جس تیزرفتاری سے دہشت گرد کا ٹرائل کیا اور اپنے ملک کے قوانین میں جس طرح کی سخت ترین تبدیلیاں کیں تاکہ آئیندہ کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے وہ قابل تقلید ہے۰ اس سارے واقعہ میں ہمارے لیے جو کئی سالوں سے دہشت گردی کا شکار ہیں اور اس دہشت گردی کے نتیجے میں ہمارے ستر ہزار سے زائد افراد اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں کئی سوال ہیں اور کئی سبق موجود ہیں جبکہ ہمارا دعوی بھی ریاست مدینہ جیسی ریاست کا ہے۰

پاکستان میں جاری دہشت گردی کو تو کئی دہائیاں گزر گئیں، اس دہشت گردی کے دوران نہ مسجدیں محفوظ رہیں، نہ سڑکیں نہ بازار نہ ائرپورٹ۰ سیکیورٹی فورسز تو دہشت گردی کا خاص نشانہ بنی رہیں۰ سیکیورٹی فورسز کے محفوظ ترین دفاتر تک اس دہشت گردی کا نشانہ بنے۰ اس تمام دہشت گردی کا سب سے المناک واقعہ آرمی پبلک سکول پر دہشت گردی کا حملہ تھا جس میں سینکڑوں بچے شہید اور زخمی ہوئے۰ معصوم بچے جنہیں ان کی ماؤں نے سکول میں پڑھنے کے لیے بھیجا دہشت گردی کے عفریت کا شکار ہوگیے۰ یہ ایسا دل دہلا دینے واقعہ تھا جس نے سخت سے سخت دل والوں کو بھی رُلا کر رکھ دیا۰ جنگوں کے دوران بھی کچھ اصول ہوتے ہیں جن پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ہمارا واسطہ اس گھٹیا اور بزدل دشمن سے رہا ہے جو چھپ کر وار کرتا ہے اور اس کے حملوں سے نہ سکول میں تعلیم حاصل کرتے بچے محفوظ رہے اور نہ مسجدوں میں نماز پڑھتے ہوئے نمازی۰ جنگوں کے دوران کبھی نہتے شہریوں پر حملہ نہیں کیا جاتا لیکن دہشت گردی کی اس جنگ میں نہتے شہری بطور خاص نشانہ رہے۰

ایسی اندھی دہشت گردی کا مقابلہ کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا کیونکہ اس میں دشمن آپ کے سامنے نہیں ہوتا بلکہ وہ چھپ کر پشت سے بزدلانہ وار کرتا ہے جس میں عورتوں، بچوں اور عام شہریوں کی بھی کوئی تمیز روا نہیں رکھی جاتی لیکن ہم نے اس دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے، سوات اور وزیرستان میں طویل آپریشن کیے گیے جن میں سیکیورٹی فورسز کے ہزاروں جوانوں نےجام شہادت نوش کیا اس سے دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی بھی آئی اور کہا جانے لگا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے لیکن اب پچھلے کچھ عرصے سے تواتر سے یہ خبریں سامنے آنے لگی ہیں کہ حکومت دہشت گردوں سے مذاکرات کر رہی ہے اور یہ خبریں اعلی حکومتی عہدیداروں جن میں صدر مملکت، وزیراعظم اور وزیرخارجہ شامل ہیں ان کی جانب سے سامنے لائی گئی ہیں۰ ابھی چند دن پہلے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کو بھی ان رابطوں اور مذاکرات کی بریفنگ دی گئی۰اجلاس کی کاروائی آن کیمرہ تھی جس کی تفصیلات تو سامنے نہیں آ سکیں لیکن اجلاس کے بعد پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے ببانگ دہل کہا کہ صدر اور وزیراعظم کون ہوتے ہیں کہ اپنے طور پر مذاکرات کرتے رہیں۰ پارلیمنٹ کو اس پر اعتماد میں لینا چاہئیے تھا۰ پارلیمان فیصلہ کرے کہ کیا حکمت عملی اپنائی جائے۰ دہشت گردوں کو معاف کرنے کا اختیار بھی صرف شہدا کے ورثا کو ہے۰ یہ توقع صرف بلاول بھٹو زرداری سے ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ اس طرح کھل کر دہشت گردی کے خلاف اپنا موقف بیان کرتے ہیں ورنہ بڑے بڑے سیاسی رہنما اس موضوع پر مصلحت کا شکار نظر آتے ہیں۰ دہشت گردی کے خلاف جنگ کوسب سے زیادہ نقصان ہی ایسے سیاسی رہنماوں کی مصلحت پسندی نے پہنچایا ہے جو ہمیشہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی حمایت کرتے رہے، دہشت گرد ہمارے بچوں اور نہتے شہریوں کا قتل عام کرتے رہے، ہمارے فوجی جوانوں کے سروں سے فٹ بال کھیلتے رہے اور یہ مذاکرات کی ڈگڈگی بجاتے رہے۰ یہ لوگ کبھی کھل کر دہشت گردی کی مذمت تک نہیں کرسکے لیکن آج دہشتگردی ختم کرنے کا کریڈٹ لینے میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۰ یہ علیحدہ بات ہے کہ دہشت گردی ختم ہو بھی سکی یا نہیں۰ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ بھی سکی یا نہیں کیونکہ اگر دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے تو مذاکرات کس سے اور کیوں ہو رہے ہیں؟ اور دہشت گردوں کی طرف سے ایک ماہ کی جنگ بندی کا کیا مطلب ہے؟

حکومت ایک طرف اگر تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالے نظر آتی ہے تو دوسری طرف بار بار حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والی تحریک لبیک کے ساتھ خفیہ معاہدے کیے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے ہزاروں کارکنوں کے نام بیک جنبش قلم فورتھ شیڈول سے نکال کر رہا کر دئیے گیے ہیں۰ حالیہ دھرنوں کے دوران چھ پولیس اہلکار شہید کر دئیے گیے اس سے پہلےدھرنوں کے دوران کے دوران بھی کئی پولیس اہلکار شہید و زخمی کیے گیے، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۰ تحریک لبیک کے رہنما سعد رضوی کے خلاف پچیس کے قریب مقدمات درج گیے گیے جن میں جلاؤ گھیراو اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ پولیس اہلکاروں کے قتل کے مقدمات بھی شامل تھے لیکن آفرین ہے حکومت پر کہ کسی ایک مقدمے میں بھی سعد رضوی کی گرفتاری نہیں ڈالی گئی اور نہ ہی کوئی مقدمہ چلایا گیا بلکہ صرف نظربندی پر اکتفا کیا گیا۰ تحریک لبیک کو کابینہ کے فیصلے کے مطابق کالعدم تو قرار دیا گیا لیکن آئین کے مطابق تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کے لئے نہ تو الیکشن کمیشن میں ریفرنس بھیجا گیا اور نہ سپریم کورٹ کے ذریعے کالعدم قرار دئیے جانے کا عمل مکمل ہو سکا۰ اس دوران تحریک لبیک الیکشن میں بھی حصہ لیتی رہی۰ حالیہ دھرنوں کے نتیجے میں ہونے والے خفیہ معاہدے کے نتیجے میں تحریک لبیک کو رسمی طور پر کالعدم قرار دیا جانے والا کابینہ کا فیصلہ بھی واپس لے لیا گیا ہے۰ عام عوام کے ذہن میں یہ سوال بہرحال گردش کر رہا ہے کہ حالیہ جلاو گھیراو اور دھرنوں کا بنیادی مطالبہ تو فرانسیسی سفیر کی بے دخلی اور فرانسیسی حکومت سے تعلقات منقطع کرنے کا تھا لیکن اس خفیہ معاہدے کے نتیجے میں فورتھ شیڈول سے کارکنوں کے نام نکالنے، کارکنوں کی رہائی اور سعد رضوی کی رہائی پر اکتفا کیوں کیا گیا؟ جس نعرے پر تحریک لبیک نے دس بارہ دن تک ریاست کو یرغمال بنائے رکھا اس نعرے کا کیا ہوا؟ اگر مقصد صرف سعد رضوی اور کارکنوں کی رہائی ہی تھا تو حکومت اس صورتحال کا ادراک کیوں نہ کر سکی؟ حکومت کی رٹ کیوں متاثر ہونے دی گئی اور چھ پولیس اہلکاروں کا خون کس کے نام لکھا گیا؟

پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے، ہمارے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے جو میزائل ٹیکنالوجی سمیت ہر طرح کے جدید سامان حرب سے لیس ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم جتھوں کے آگے بے بس نظر آتے ہیں، ہر چھ سات ماہ کے بعد دس بارہ ہزار افراد پر مشتمل ایک جتھہ نکلتا ہے اور ایٹمی ریاست کو یرغمال بنا لیتا ہے، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچاتا ہے، کاروبار زندگی کو معطل کردیتا ہے، پولیس اہلکاروں پر سیدھی فائرنگ کرکے پولیس اہلکاروں کو شہید کرتا ہے اور ریاست کے پاس اس کا صرف ایک حل ہے۔۔۔ ہر بار ایک نیا معاہدہ۰ کیا کوئی حکومتی وزیر مشیر یہ بتانا پسند کرے گا کہ ان معاہدوں کا کیا کبھی کوئی فائدہ ہوا؟ کیا کبھی کوئی ان معاہدوں پر کاربند رہا؟ ہر نیا معاہدہ ریاست کی رٹ کو مزید کمزور کرتا چلا جا رہا ہے لیکن کسی کو اس چیز کا احساس نہ پہلے تھا نہ اب ہے۰ حکومت نام کی کوئی چیز تو نظر نہیں آتی جو ریاست کی رٹ کو بحال کرنے کے لیے کوئی مستقل اور پائیدار حل تلاش کرسکے نہ ہی پارلیمان کو اعتماد میں لیا جاتا ہے کہ پورے ملک سے منتخب عوامی نمائیندے مل کر اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کر سکیں۰ تحریک لبیک ہو یا تحریک طالبان یا ایسی کوئی بھی تحریک ہماری حکومت ان کے مقابلے میں عوام کے جان و مال کے تخفظ میں ناکام نظر آتی ہے۰ کوئی ہمارے ستر ہزار سے زائد افراد کو جان سے مار ڈالے، ہمارے معصوم بچوں کی زندگیاں چھین لے یا ہماری سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار ڈالے ہم ان سے صرف مذاکرات کرتے ہیں ان سے معاہدے کرتے ہیں اورکسی اگلے واقعے کے وقوع پذیر ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور ان ہر دو واقعات کے درمیانی عرصے میں ہم یہ پرچار کرتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۰

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

آفتاب احمد گورائیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author