مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خواجہ فرید کا124واں عرس||ظہور دھریجہ

ایک میں وضاحت کرتا چلوں کہ پچھلے دنوں میرا مضمون سچل سرمست سرائیکی کا قومی شاعر شائع ہوا تھا جس پر بحث کا سلسلہ جاری ہے ، سچل سرمست کا تعلق سندھ سے ہے اور سندھ بھی وسیب کا ہی حصہ تھا اور سندھ کی قومی زبان سرائیکی رہی ہے،

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواجہ فرید کے عرس کی اختتامی تقریبات میں بہت سے پہلو سامنے آئے ۔ زائرین کے مسائل کے علاوہ اس بات کی ضرورت کو بھی محسوس کیا گیا کہ تعلیمات کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ خواجہ فرید کے کلام میںجو تحریفات ہوئی ہیں ان کو ہٹا کر درست دیوان فرید کی طباعت ہونی چاہیئے ۔ خواجہ فرید کے حالات و واقعات پر غور کرتے ہیں ہیں تو حیران کن باتیں سامنے آتی ہیں۔
سجادگی کے منصب پر جلوہ افروز ہونے کے بعد آپ نے ادارت مندوں اور مریدین کی تربیت پر خاص توجہ دینا شروع کی آپ چاچڑاں شریف دن کے وقت 6سے 8گھنٹے تک مریدوں اور حاجتمندوں سے ملتے جو بھی ملنے آتا اس کی بات توجہ سے سنتے اور اس کی حاجت روائی کیلئے دعا بھی فرماتے اور دوا کا انتظام بھی فرماتے ۔ آپ کے دربار میں شاہان وقت سے لیکر غریب امیر سب حاضر ہوتے ، آپ سب کو محبت ، امن اور صلح جوئی کا درس دیتے ، آپ کی سچائی ،ہمدردی و غمگساری کا چرچہ روز بروز بڑھتا گیا ۔ اس طرح آپ کے مریدوں اور عقیدت مندوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا گیا اس طرح انسانوں سے آپ کی شفقت ، محبت اور سخاوت فزوں تر ہوتی چلی گئی ، یوں تو خواجہ فرید کی پوری زندگی انسان دوستی سے بھری پڑی ہے مگر چند ایک واقعات ملاحظہ فرمائیں۔ ایک روایت کے مطابق نواب آف بہاول پور نے ایک دیو بندی عالم کو ’’سخت‘‘ یا ’’گستاخانہ‘‘ تقریر کرنے پر ’’ریاست بدر‘‘ کر دیا ۔ مولوی صاحب کو اور نہ سوجھی وہ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اپنا مدعا بیان کیا ، اس کے جواب میں خواجہ صاحب نے جو سفارشی خط مولوی صاحب کو دیا وہ کئی پہلوئوں سے عدیم النظیر ہے ، پہلے آپ خط کا متن ملاحظہ فرمائیں: صادق ! زیر تھی ، زبر نہ تھی، متاں پیش پوندی ہووی۔
خواجہ فرید کے اس خط سے جہاں رواداری اور انسان دوستی کا پہلو سامنے آتا ہے وہاں یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ آپ سفارشی رقعے میں بھی شاہان وقت کو جھنجھوڑ سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ بادشاہی اور دولت کی مستی میں آپنے آپ کو ’’زابر‘‘ (جابر) اور فرعون نہ بنائو عاجزی کرو، انکساری کرو ، صبر اور تحمل کرو اگر ایسا نہ کرو گے تو پھر پیش آنیوالے خدا کے قہر کو برداشت نہ کر سکو گے۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ خواجہ فریدؒ نے کائنات کا مختصر تین خط لکھ کر دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے ، انہوں نے صرف زیر ،زبر ،پیش کے ذریعے کئی کتابوں کے مواد کو بیان کرکے انسان دوستی ، امن عالم اور فلاح دارین کا پورا فلسفہ بیان کر دیا ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ خواجہ فریدؒ کتنے بڑے عالم، کتنے بڑے فلسفی اور کتنے بڑے بہادر انسان تھے ۔
خط کی ۔تیسری خاص بات یہ ہے کہ خواجہ فرید نے بادشاہ وقت کو بھی اپنی سرائیکی زبان میں خط لکھا ، اس سے جو احساس کمتری کا شکار ہیں ، سرائیکی زبان کو کمتر اور حقیر سمجھتے ہیں ان کو خواجہ کے عمل کی تقلید کرنی چاہیئے۔سرائیکی وسیب کو سات دریائوں کی سرزمین کہا جاتا ہے، دریا اور سیلاب لازم ملزوم ہیں، یہ بھی دریا کا اصول ہے کہ وہ ایک سمت نہیں چلتا، آج جہاں صحرا ہے صدیوں پہلے یہاں دریا تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دریائوں کی اپنی الگ دنیا اور اپنا جہان ہے، سرائیکی وسیب میں دریائی لغت میں اتنے الفاظ ہیں کہ اگر سرائیکی کی صرف دریائی لغت شائع کی جائے تو اُس کی کئی جلدیں سامنے آسکتی ہیں، دریا کے کٹائو کو سرائیکی میں ’’ڈھا‘‘ کہتے ہیں اور خواجہ فرید نے کٹائو کے بارے میں کہا ہے کہ ’’کوئی خبر نہیں ڈھا لا دی‘‘ اس کا مطلب ہے کہ دریا کا کوئی علم نہیں کہ وہ کس وقت اور کس جگہ سے کٹائو شروع کر دے،
 اس حقیقت کو دریائوں کے ساتھ رہنے والے لوگ جانتے ہیں کہ جب دریائوں میں طغیانی آتی ہے اور سیلاب آتے ہیں تو پھر دیہات تو کیا قصبے اور شہر بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں اور ہنستی بستی بستیاں اور باغات اجڑ جاتے ہیں، اس حالت میں متاثرین میں مایوسی کے سوا اپنے پاس کچھ نہیں ہوتا، ان حالات میں خواجہ فرید تباہ حال انسانوں کو امید کا پیغام دیتے ہیں اور اُن کو بتاتے ہیں کہ یہ گھر ،
یہ بستیاں ایک بار پھر سے آباد ہو جائیں گی کہ دریا کبھی ایک سمت نہیں بہتے، خواجہ فرید کے شعر دیکھئے ہن تھی فریدا شاد ول/مونجھاں کوں نہ کر یاد ول جھوکاں تھیسن آباد ول/اے نئیں نہ واہسی ہک منی آپ نے دنیا کے اکثر ممالک کی سیر کی ہو گی، پاکستان میں بھی کاغان، ناران اور بہت سے دوسرے خوبصورت مقامات موجود ہیں مگر اگر کسی نے چولستان کے صحرا کو نہیں دیکھا تو یوں سمجھئے کہ کچھ نہیں دیکھا، خواجہ فرید کی شاعری چولستان کا درشن ہے، خواجہ فرید نے اپنی شاعری کے ذریعے چولستان کو امر کر دیا ہے، چولستان میں ہزاروں نباتات میں سے ایک ’’لانا‘‘ اور ایک ’’پھوگ‘‘ بھی ہے،
 خواجہ فرید نے اپنے شعر میں کہا ہے کہ لانا پھوگ دل کے درد اور درد مندوں کیلئے اکسیر ہے، شعر دیکھئے۔ لانے پھوگ فرید دے/درد دلیں دے درمل ہر وہ شاعر بڑا شاعر ہوتا ہے جس کی شاعری اپنے وسیب اور اپنی دھرتی کے بارے میں ہوتی ہے، یہ شاعری گو کہ اپنے وسیب کے ماحول میں لکھی گئی ہوتی ہے مگر یہ تمام ملکوں اور تمام انسانوں کیلئے ہوتی ہے اور ایسی ہی شاعری دائمی، لازوال اور بے مثال شاعری کہلاتی ہے، خواجہ فرید کی شاعری یقینا ایسی ہی خصوصیات پر پوری اترتی ہے اور بلا شبہ ہم اُن کو وسیب کا قومی شاعر کہہ سکتے ہیں۔
ایک میں وضاحت کرتا چلوں کہ پچھلے دنوں میرا مضمون سچل سرمست سرائیکی کا قومی شاعر شائع ہوا تھا جس پر بحث کا سلسلہ جاری ہے ، سچل سرمست کا تعلق سندھ سے ہے اور سندھ بھی وسیب کا ہی حصہ تھا اور سندھ کی قومی زبان سرائیکی رہی ہے، سچل سرمست کا زمانہ خواجہ فرید سے پہلے ہے ، یہ ایک علمی بحث ہے جس کو ریسرچ سکالر یقینا آگے بڑھائیں گے۔ایک بات یہ بھی کہوں گا کہ خواجہ فرید پر نئے سرے سے تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک زائرین کی سہولتوں کی بات ہے تو کل تک تو یہ کہا جاتا تھا کہ میاں نواز شریف اورمیاں شہباز شریف وسیب پر توجہ نہیں دیتے آج جبکہ حکمرانوں کا تعلق وسیب سے ہے تو ان کو ہر صورت توجہ دینی چاہیئے ورنہ موجودہ حکمرانوں کا شمار بھی وسیب کے انہیں جاگیر دار اور تمندار سیاستدانوں میں ہوگا جو ہمیشہ سے برسراقتدار تو رہے مگر وسیب کے لئے کچھ نہ کیا۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: