مظہر اقبال کھوکھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے کچھ ہفتوں سے وطن عزیز میں "پیج” موضوع بحث بنا ہوا ہے اس سے قبل حکومت ہمیشہ یہ کہتی رہ ہے کہ ہمیں کوئی خطرہ نہیں تمام سول اور عسکری ادارے ایک بیج پر ہیں یقیناً ملک ترقی ، خوشحالی اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے تمام اداروں کا ایک پیج پر ہونا خوش آئند عمل ہوتا ہے مگر اب جو آوازیں آرہی ہیں وہ اگر زیادہ خطرناک نہ بھی ہوں مگر تشویشناک ضرور ہیں۔ کوئی کہتا ہے پیج پھٹ گیا ہے کوئی کہتا ہے ایک پیج اب ایک نہیں رہا کوئی کہتا ہے پیج تو ایک مگر تحریریں مختلف ہوگئی ہیں۔ اس تمام صورتحال میں حقیقت کیا ہے اس پر اگر غور کرتے ہیں تو ماضی کے اوراق اس بات کی چیخ چیخ کر گواہی دیتے ہیں کہ حکومتیں بنانے ، حکومتیں چلانے اور حکومتیں گرانے میں مقتدر قوتوں کا کوئی نہ کوئی کردار کہیں نہ کہیں ضرور موجود رہا ہے۔ اصغر خان کیس میں سامنے آنے والے چشم کشاء حقائق سے لے کر صدر وزیر اعظم کے استعفوں تک کہیں مقتدر قوتوں کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے اور کہیں خفیہ ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔ مگر ماضی میں ایسے خفیہ معاملات کبھی عام لوگوں میں زیر بحث نہیں آئے مگر آج جب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے کہیں بڑھ کر سوشل میڈیا مضبوط ہورہا ہے اور پھر مختلف سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا سیل بنا رکھے ہیں تو ایسے میں مقتدر قوتوں کا کردار کسی لگی لپٹی کے بغیر زیر بحث بنا ہوا ہے تو ایسی صورتحال میں وہ عام آدمی جسے پہلے کبھی مقتدر قوتوں کے کردار سے غرض تھی نہ سیاست اور سیاسی مہروں سے کوئی سروکار مگر آج وہ بھی اس کردار پر اپنی ایک رائے رکھتا ہے۔
اس سے قبل یہ تاثر عام تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کے لے پہلے ماحول تیار کیا گیا ذہن سازی کی گئی اور الیکٹبلز کو باقاعدہ پی ٹی آئی میں شامل کرایا گیا جبکہ حکومت سازی کے بعد تحریک انصاف نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا کہ مقتدر قوتوں کے ساتھ ہمارے تعلقات مثالی ہیں اور ہم ایک پیج پر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ابتدائی 100 روز میں تبدیلی کے کیے گئے دعوؤں میں ناکامی پر میڈیا اور سیاسی حلقوں کی طرف سے تنقید شروع ہوئی تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی ایس پی آر کی طرف سے باقاعدہ پریس کانفرنس کر کے پہلے 6 ماہ اور بعد میں حکومت کو کارکردگی بہتر کرنے کے لیے دو سال کی مہلت دینے کی بات کی گئی اور میڈیا کو بھی باقاعدہ مثبت رپورٹنگ کرنے کی ہدایت کی گئی اور یہ تمام معاملہ تین سال تک خوش اسلوبی سے چلتا رہا مگر عسکری اداروں میں اعلی پیمانے پر ہونے والی تقرریوں اور تبادلوں کے دوران وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے ہونے والی تاخیر کے بعد یہ تاثر ابھرا کہ معاملات اب پہلے جیسے نہیں رہے اور ایک پیج پر اب ایک جیسی باتیں نہیں رہیں۔
ابھی اس کی گونج باقی تھی کہ ٹی ایل پی حکومت کے خلاف میدان میں آگئی اور لاہور سے پنڈی تک ملک کو جام کردیا جس سے پورے ملک کی صورتحال کشیدہ ہوگئی جبکہ حکومت صورتحال کو کنٹرول کرنے میں مکمل ناکام دکھائی دینے لگی تو عسکری حلقوں کی مداخلت سے صورتحال بہتر ہوئی اور مزاکرات کے نتیجے میں حکومت کو تمام مطالبات تسلیم کرنے پڑے۔ اور اب سیاست کے سمندر میں نظر آنے والی ہلچل کسی بڑے طوفان کی پیش خیمہ ثابت نہ بھی ہو مگر پیدا ہونے والی تھرتھراہٹ سے بہت کچھ اتھل پتھل ہوسکتا ہے۔ قومی سلامتی کے اجلاس میں وزیر اعظم کی عدم شرکت جبکہ اپوزیشن کی بھر پور شرکت کے بعد بلاول کی شہباز شریف سے ملاقات جبکہ گزشتہ روز بلاول کی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات اور پارلیمنٹ میں مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے پر اتفاق جس میں تحریک اعتماد بھی شامل ہے جبکہ پی ڈی ایم کی طرف سے ملک گیر احتجاج اور اسلام آباد کی طرف سے لانگ مارچ کا اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر آنے والا دن حکومت کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے اور حکومت مسلسل کمزور ہورہی ہے جبکہ اپوزیشن اس کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اگر اپوزیشن حکومت کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے تو اس کے لیے حکومت کے اتحادی ہی کافی ہیں جن کے تیور دن بدن بگڑتے نظر آرہے ہیں۔
پچھلے دنوں نیب ترامیم اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جس کو وزیر اعظم نے جہاد سے تشبیہ دیتے ہوۓ ممبران کو ہر صورت شرکت کی ہدایت کی تھی وہ اس لیے ملتوی کرنا پڑا کہ حکومت کے اہم اتحادیوں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اب مسلم لیگ ق نے پنجاب حکومت کے روئیے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں صرف ضرورت کے وقت بلایا جاتا ہے بطور اتحادی ہمیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی جبکہ دونوں اتحادی جماعتیں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حکومت کی معاشی پالیسیوں پر بھی تنقید کا اظہار کیا ہے۔ مگر نہیں معلوم اتحادیوں کی یہ تحفظات واقعی عوام کے درد میں ہیں یا اس درد کے پیچھے کوئی اور کہانی ہے کیونکہ پاکستان کی سیاست میں جو نظر آتا ہے وہ حقیقت نہیں ہوتی اور جو حقیقت ہوتی ہے وہ نظر نہیں آتی یہی وجہ ہے قوم حقیقت سے کوسوں دور اپنے حقوق کی امید پر جمہوریت کو سپورٹ کر رہی ہوتی ہے اور جمہوریت کے علمبردار ایک پیج کے زعم میں جمہور کو مسلسل نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں حالانکہ کسی بھی ملک میں جمہوریت صرف اسی صورت مضبوط ہوسکتی ہے جب جمہور کے ساتھ اس کا تعلق مضبوط ہو اور جمہور کے ساتھ تعلق صرف اسی صورت مضبوط ہوسکتا ہے جب جمہور کی توقعات پر پورا اترا جائے جمہور کی امنگوں کے مطابق فیصلے کئے جائیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا جمہوریت کی مضبوطی کے نام پر غیر جمہوری قوتوں کے سہارے لیے جاتے ہیں اور جمہور کے پیج کو خالی چھوڑ دیا جاتا ہے عوام کے پیج پر ایک ہونے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی ماضی میں بھی یہی ہوتا رہا اور آج بھی یہی ہورہا ہے حکمران اگر واقعی جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو عوام کا پیج موجود ہے آج بھی وقت ہے کہ حکمران بھوک ، غربت ، بے روزگاری ، کرپشن اور مہنگائی کی لکھی تمام تحریروں کو مٹا کر عوام کے پیج پر عوام کے ساتھ ایک ہوجائیں تو انہیں دنیا کوئی قوت شکست نہیں دے سکتی ورنہ جتنے بھی پیج ہیں جب پلٹتے ہیں تو تخت سے تختے تک اور وزیر اعظم ہاؤس سے جیل تک کوئی زیادہ وقت نہیں لگتا۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی