نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہولی کا تہوار||ظہور دھریجہ

ایک دوسرے پر چھڑکنے کیلئے سبز ،سرخ اور پیلے رنگ کا استعمال کرتے ، خوشی کے موقع پر ہندو عورتیں اور مرد جھمر کے ’’پِڑ ‘‘ پر سرائیکی دعائیہ گیت ’’ کھڑی ڈیندی آں سنہیڑا انہاں لوکاں کوں ، اللہ آن وساوے ساڈیا جھوکاں کوں ‘‘ یا پھر ’’ ماہی دا رومال ، سب ساوا، پیلا ، لال ‘‘ جیسے لوک گیت گائے جاتے اور ہندؤں کی ان خوشیوں میں مسلمان بھی اسی طرح شریک ہوتے ، جس طرح ہندو مسلمانوں کی عید پر خوشی میں شریک ہوتے ۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے دنوں پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ہولی کا تہوار منایا گیا۔ چولستانی سنگر موہن بھگت اور آڈو بھگت کی طرف سے ہولی کی تقریب ہوئی۔ اس موقع پر مقررین نے کہا ’’ہزاروں سال پہلے ملتان کا متکبر حکمران ہرنایک سپو خود خدا بن بیٹھا، اس کے گھر پرہلاد پیدا ہوا، کچھ بڑا ہوا تو باپ کی طرف سے’’ وشنو ‘‘ کا انکار اسے کو پسند نہ آیا، ایک دن اپنے استاد کے ساتھ پرہلاد باپ کے دربار میں حاضر ہوا، وہ شراب کے نشے میں تھا،
 پرہلاد نے جھک کر سلام کیا تو اس نے پوچھا تم نے کیا پڑھا ہے، پرہلاد نے کہا میںنے اس ہستی کی حمد پڑھی ہے جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا جو کل کائنات کا مالک ہے،یہ سن کر پرہلاد کاباپ سخت غصے میںآ کر بولا میں تین بادشاہتوں کا خدا ہوں ، میرا بیٹا میرا منکر ہے ،اسی غصے کی حالت میں ہرنا نے حکم دیا کہ پرہلاد کو آگ میں زندہ جلا دو ، کہا جاتا ہے کہ آگ کے لاؤ میں اسے ڈالا گیا ، مگر آگ گلزار بن گئی ،
اس خوشی میںخدا پرستوں نے جشن منایا اور خوشی میں ایک دوسرے پر رنگ ڈالے گئے، اور خوشی سے رقص کیا گیا ، خوشی کے اس رقص کو ہولی کا نام دیا گیا۔ ‘‘تاریخ کو جدید اور سائینٹفک نظروں سے دیکھنے والے حفیظ خان اپنی کتاب مآثر ملتان میں لکھتے ہیں کہ ملتان کے تاریخی قلعہ پر عہد عتیق کی اگر کوئی حقیقی اور یقینی تصویر موجود ہے تو اس دور کے اہم فرمانروا پرہلاد کے نام سے موسوم ’’ پرہلاد مندر ‘‘ ہے ، پرہلاد مندر کو اگر وادی سندھ کی پہلی باقاعدہ یونیورسٹی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔،
کہا جاتا ہے کہ پرہلاد مدرسہ کی تاریخ پانچ ہزار قبل مسیح ہے ، آثار قدیمہ کے حوالے سے یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی ورثہ بھی تھا ، جسے شدت پسندوں نے مسمار کر دیا ، ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کے اس قدیم ورثے کو بحال اور محفوظ کر کے قوموں کی برادری میں پاکستان کا نام سر بلند کیا جائے ۔ ہولی کے دن ہندوئوں کے گھروں میں طعام پکائے جاتے ہیں ۔ بچے ، بوڑھے ، جوان ، مرد اور عورتیں ایک دوسرے پر رنگ چھڑکتے ہیں ، جس طرح ہر خوشی کے تہوار پر مقامی رنگ اور مقامی نمایاں ہوتی ہے، جیسا کہ عید کے موقع پر عربی اپنا لباس اور اپنی پسند کا طعام پکاتے ہیں اور دوسرے ملکوں کے مسلمان اپنی اپنی پسند کے، اسی طرح تقسیم سے پہلے جب سرائیکی وسیب میں ہندو بہت زیادہ تھے تو وہ مقامی سرائیکی ثقافت کے رنگوں میں ڈھل کر اپنی خوشی کا تہوار مناتے تھے،
 ایک دوسرے پر چھڑکنے کیلئے سبز ،سرخ اور پیلے رنگ کا استعمال کرتے ، خوشی کے موقع پر ہندو عورتیں اور مرد جھمر کے ’’پِڑ ‘‘ پر سرائیکی دعائیہ گیت ’’ کھڑی ڈیندی آں سنہیڑا انہاں لوکاں کوں ، اللہ آن وساوے ساڈیا جھوکاں کوں ‘‘ یا پھر ’’ ماہی دا رومال ، سب ساوا، پیلا ، لال ‘‘ جیسے لوک گیت گائے جاتے اور ہندؤں کی ان خوشیوں میں مسلمان بھی اسی طرح شریک ہوتے ، جس طرح ہندو مسلمانوں کی عید پر خوشی میں شریک ہوتے ۔
ہمارے صوفیا ء نے انسانوں کے درمیان رواداری کے جس جذبے کو فروغ دیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔سرائیکی زبان کے عظیم شاعر خواجہ فرید ؒ نے اپنی تین کافیوں میں ’’ ہولی ‘‘ کا ذکر نہایت ہی دلپذیر انداز میں کیا، خواجہ فرید کی ہندی کافی ’’ بندرا بن میں کھیلے ہوری ، شام دوارے میرو لال ‘‘ ہندی اور سرائیکی ادب ایک کی ایسی شاہکار کافی ہے جس کا ایک ایک لفظ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے، اسی طرح کافی نمبر 85 کے ایک شعر میں خواجہ فرید ؒ کہتے ہیں کہ سندر ( کرشن کا ایک نام ) کے ساتھ کونج گلی میں خوشی سے ہولی کھیلوں ، اسی کافی کے مقطع میں خواجہ صاحب ’’ من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ ‘‘ کے فلسفے کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ اور سے کام فرید نہ میرو ، آتم دیو مناؤں ‘‘۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے صوفیا کرام لوگوں کو انسان دوستی اور روادری کا درس دیا ہے،
 دوسرے بزرگ صوفیا کی طرح خواجہ فریدؒ نے ہندو اوتار اور دیوی دیوتاؤں کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ کیا ہے، معروف محقق قیس فریدی کی تحقیق کے مطابق آپ کی کافیوں میں آتم دیو ، آنند ، روم ، برہما، بشن ، جگوان ، بلدیو ، جسودا، یشومتی ، دسرتھ ، رام چندر جی ، سیتا جی ، کالکی ، کرشن ، کینہا ، کان ، شام ، گروجی ، ست گرو ، گنیش جی ، لچھمن جی ، مہادیو، مہیش ، نارائن ، ہر اور ہری کا ذکر اکثر کافیوں میں ملتا ہے، اسی طرح بہت سے ہندو شاعروں نے حمد ، نعت ، منقبت اور قصیدے بھی لکھے ہیں ۔ یہ سب مذہبی روادری کے مظاہر ہیں ، آج کے عدم برداشت ، انتہا پسندانہ اور دہشتگردانہ دور میں ہمارے صوفیا کرام کی صوفیانہ تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔کہنے کو کو تو اقلیتوں کو ملک میں برابر نمائندگی حاصل ہے ‘ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا بھی فرمان ہے کہ پاکستان میں رہنے والے تمام لوگوں کو بلا رنگ ، نسل و مذہب برابر حقوق حاصل ہوں گے ۔بھارت میں ہندوں کی جانب سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے‘ مختلف بہانے بنا کر بھارت میں مسلمانوں کو تنگ کیا جاتا ہے اور بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر میں مظالم بڑھا دیئے گئے ہیں‘ لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
 ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت پاکستان کی طرف سے امن کی خواہش کو نظر انداز نہ کرے اور امن کی طرف آئے تاکہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے لوگ امن سے رہ سکیں اور ہندؤ ہولی اور مسلمان عید کا دن خوش ہو کر منا سکیں اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں ۔ ہولی کے دن کے موقع اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ حکومت پاکستان جس طرح عید پر مسلمانوں کیلئے عام تعطیل کرتی ہے، تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کرتی ہے، ریڈیو ٹیلی ویژن پر خصوصی پروگرام نشر ہوتے ہیں ، پاکستان میں ’’ کرسمس ‘‘ کے موقع پر بھی روائت موجود ہے ،لازم ہے کہ آج ہندوئوں کیلئے بھی حکومت اس طرح کے اقدامات کا اعلان کرے تاکہ ان کے لئے ہولی کی خوشیاں دوبالا ہو سکیں۔

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author