اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہ سادہ اور خوبصورت انداز و بیان میں کیسے کیسے فلسفے اور دانش بیان کرتا تھا ۔ وہ ساری زندگی پاکستان سرائیکی پارٹی میں رہا اور سرائیکی قومیت کا مقدمہ لڑتا رہا ۔

تونسہ شریف ،نامور سرائیکی دانشور استاد محمود نظامی انتقال کر گئے، استاد محمود نظامی کا انتقال آج صبح انکے آبائی شہر تونسہ شریف میں حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ہوا ہے ، استاد محمود نظامی کی نماز جنازہ آج رات 8 بجے دربار محمودیہ پر ادا کی جائیگی

ملتان سے تعلق رکھنے والے ممتاز ادیب جاوید اختر بھٹی نے محمود نظامی کی وفات سے متعلق لکھا ’’آج صبح ممتاز اطہر نے فون کیا اور انہوں نے محمود نظامی کے گزر جانے کی خبر دی ۔ آج چالیس سال کی رفاقت دم توڑ گئی ۔ کیا دن تھے ساری ساری رات منصور کریم کے گھر میں محفل ہوتی تھی دنیا جہان کے موضوعات پر گفتگو ہوتی اور اسی گفتگو میں محمود نظامی کا قہقہہ بلند ہوتا ۔ وہ سادہ اور خوبصورت انداز و بیان میں کیسے کیسے فلسفے اور دانش بیان کرتا تھا ۔ وہ ساری زندگی پاکستان سرائیکی پارٹی میں رہا اور سرائیکی قومیت کا مقدمہ لڑتا رہا ۔ وہ ان بنیادی لوگوں میں سے تھا کہ جنھوں نے سرائیکی سیاسی بیداری کے لیے طویل جدوجہد کی ۔
آج میں بہت اداس ہوں ۔ دوست بتا رہے تھے کل نظامی ملتان کچہری میں تھے بہت سے دوستوں سے ملے ۔ کوئی شخص اندازہ ہی نہیں کر سکتا تھا آج اس کا آخری دن ہو گا ۔ لے او یار حوالے رب دے
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر‘‘
نامور صحافی رؤف کلاسرا نے لکھا  ’’ہمارے سرائیکی وسیب کے مہاندرے دانشور محمود نظامی جنہوں نے کئی نسلوں کو متاثر کیا کی اچانک وفات کی خبر نے افسردہ کر دیا ہے۔ سرائیکی وسیب محمود نظامی کے بغیر ادھورا اور اداس رہے گا۔ ان سے 1991 میں نعیم بھائی کے بہاولپور ہسپتال کے عباس منزل کے کمرے میں ہونے والی پہلی ملاقات سے اب تک کی یادوں نے دل کو جکڑ لیا ہے۔ ان سے بہت کچھ سیکھا اور بہت جھڑکیں کھائیں ۔ ان کی جھڑکیوں میں بھی برکت تھی ۔ جس نے نظامی صاحب کی جھڑکیاں نہیں کھائیں وہ بے فیض رہا۔ نظامی صاحب ہمارے سرائیکی وسیب کے لاڈلے تھے۔‘‘

لندن میں مقیم سرائیکی دانشور اور صحافی ندیم سعید نے استاد محمود نظامی کو ان الفاظ میں یاد کیا:

’’آج صبح دایان کو سکول چھوڑنے کے لیے اٹھا تو جب وہ تیار ہورہا تھا میں نے فیس بک کھولی تو سرمد سلیمان نے اپنے والد محمود نظامی صاحب کی وفات کی اطلاع پوسٹ کی ہوئی تھی۔سارا سرائیکی وسیب انہیں استاد نظامی کے نام سے جانتا تھا۔میرے لیے یہ بہت بڑا صدمہ ہے۔پاکستان آنے کی ایک بڑی وجہ اب نہیں رہی۔ سکول جاتے ہوئے راستے میں دایان نے پوچھا کہ آپ پر زیادہ اثر اپنے والد کا ہے یا نظامی صاحب کا، تو میں نے اسے بتایا کہ میرے والد اور اس کے دادا ساری زندگی علم کی جستجو میں رہے، لیکن ان کا نظریاتی فریم ورک مذہب اور پھر اس میں مذہب اسلام رہا۔ وہ ابن عربی، غزالی، منصور، مرزا غلام احمد، پرویز، رومی اور ایسے دوسرے اسلامی مفکروں، مصلحین اور باغیوں کے درمیان بھٹکتے رہے۔ وہ sceptic تھے۔جبکہ نظامی صاحب کا فکری فریم ورک مارکسی اور صوفیانہ تھا، اور وہ ان پر کامل یقین رکھتے تھے۔ ان کی تجزیہ کرنے کی حس بہت تیز تھی۔ مشکل ترین بات کو عام فہم انداز میں سمجھانے کا ان کا انداز ، لطیفوں سے انہیں اور واضح کرنا، حساس طبیعت، کسان کو اللہ کا ولی سمجھنا۔ استاد نظامی کی کئی یادیں ہیں جو فلم کی طرح اس وقت ذہن میں چل رہی ۂیں۔ مہدی لغاری نے لکھا ہے کہ آنے والے کل کو دیکھنے والا شخص رخصت ہوگیا ہے۔ بے شک۔ استاد نظامی larger than lifeکردار تھے۔ وہ ہمیشہ اپنے چاہنے والوں کی گفتگو، فکر، اور سوچ میں زندہ رہیں گے۔ میں نے دایان کو بتایا کہ فکر اور نظریاتی تیقن کے اعتبار سے میرے اوپر نظامی صاحب کا اثر زیادہ ہے۔ اسے بتایا کہ کیسے انہوں نے میرے اور دوسرے کئی لوگوں میں تنقیدی اور مارکسی فکر کو اجاگر کیا۔دایان جو خود مارکسی فلسفے کا سنجیدہ طالبعلم ہے نے اس پر کہا کہ اس کا مطلب ہے آج میرے فکری دادا فوت ہوگئے ہیں۔‘‘
May be an image of 2 people, people sitting and indoor
سینئیر صحافی اور سرائیکی ناول نگار نذیر لغاری نے ان الفاظ میں استاد محمود نظامی کو  خراج عقیدت پیش کیا :
’’یار نظامی اے تاں کڈاہاں سوچیا وی نہ ہا جوایں وی تھی سگدے۔پنج نومبردی شام ملتان کٹھے ہاسے۔ تیں ملن سیتی آکھیئے”کڈھ کتاب” میں آکھیئے”لاہورکنوں ارشاد امین وساخ چا تے پجداپئے، حاضراجھو او آیا، میں کتاب پیش کرینداں۔ول پتہ نئیں لگا توں کن تے گئیں پیا، کتاب تے سنگتی الیندے پئے ہن، میں کتاب چھپن دے ستت پچھوں تیکوں آکھیا ہم جو آپنا پتہ پٹھ میں وساخ پٹھینداں۔ تیں آکھیا ہا”جڈاںملسوں کتابگھنساں”ول روں کن تے گیا ہانویں پیا۔ول اے سدھ پئی جوتیں اجل دو منہہ چا کیتے۔
یار نظامی اے کیا تھی گئے۔میں سویل تیڈے نمبر تے فون کیتے، شاہنواز نال گالھ تھئی،اوں ڈسایا جو ہا سائیں اباٹر گئے۔صفدرکلاسرا نال گالھ تھئی، صفدر ڈسیئے جو رات کوں خیرسلا نال سُتے، سویل اُٹھیا نئیں، بس راتی رات دیس رانجھن دا پندھ چا کیتس۔یارنظامی توں تاں حیاتی ونڈینداں ہانویں، بھیڑی موت دو منہہ کیوں کیتو۔فاروق محرم میڈے نال الائس، آکھیس یار مکان ہووی یارنظامی ٹرگئے۔ہائے یارنظامی گُلخی ول نہ جلسوں؟ تیں آون دا آکھیا ہاتوں میں ڈوآؤسیں، رلے سمندرتے جلسوں، مہاساگرنال حال ونڈیسوں، شاہد جتوئی تے رؤف ساسولینال گالھیں تھیسن۔یارنظامی ہن کیا تھیسی؟اچھا ہن نہ آؤسیں۔رؤف ساسولی کوں کیا آکھاں، شاہد جتوئی کوں ڈساں یا نہ ڈساں۔
یار نظامی میکوں سُدھ ھے۔موت فرشتہ دوکھےنال تیکوں رلا تے گھن گئے۔میکوں سُدھءِ جو توں نندر نہ ہوندا،موت کوں دڑکے نال بھجا چھڑیندا۔
یار نظامی اساں تیکوں نہ وسریسوں۔سنگت جڈاں جتھاں رل بہسی، سنگت تیکوں یاد کریسی۔یار نظامی، یارنظامی، وویار نظامی۔۔۔۔۔‘‘
صحافی اور دانشور عامر حسینی نے درج ذیل الفاظ میں استاد محمود نظامی کو خراج عقیدت پیش کیا:
’’محمود نظامی کے جانے کی خبر برچھی کی طرح سینے پہ لگی اور مجھے یوں لگا کہ وہ اب بھی ہماری اداسی پہ قہقہے لگارہا ہے –
میں نے یہ کبھی خیال نہیں کیا تھا کہ اتنی جلدی مجھے محمود نظامی کا مرثیہ لکھنا پڑجائے گا –
مقامی دانش کے چند ایک بڑے دیوتاؤں میں محمود نظامی اپنی نوعیت کا اپنی مثال آپ ایک الگ ہی دیوتا تھا –
جیسے مجھے شمیم عارف قریشی کا کوئی نعم البدل نظر نہیں آتا، ایسے ہی مجھے استاد محمود نظامی کا کوئی نعم البدل نظر نہیں آتا –
میں جب کبھی استاد محمود نظامی سے ملتا تو وہ کھلکھلا کر ملتے، زرا دیر بعد زور دار قہقہہ لگاتے، زرا دیر بعد ہاتھ پہ ہاتھ مارتے، وہ اپنی کہی بات کا خود مزا (چَس) لیتے اور دوسرے سے بھی اس کی توقع کیا کرتے تھے –
وہ لوک دانش اور سیاست عصر کا ایسا امتزاج تھا کہ ویسا امتزاج کہیں اور تلاش کرنا ممکن نہیں تھا
استاد نظامی ہمیشہ "امید پرست” رہا کرتے تھے اور اپنی دھرتی کے مقامی آدمی سے وہ کبھی مایوس نہیں ہوتے تھے بلکہ اُن کو لگتا تھا "مایوسی” غیر سیاسی، غیر ترقی پسند اصطلاح اور جذبہ ہے جس کی بیخ کنی ازحد ضروری ہے – وہ اپنے طنز و مزاح سے ایسے جذبوں کے پرخچے اڑا دیا کرتے تھے
نظامی صاحب! آپ کی جدوجہد کو سُرخ سلام -‘‘
سرائیکی دانشور شہزاد عرفان نے لکھا :
’’لگدے اج یتیم تھئیے ہیں میڈا استاد میڈا منٹور میڈے ملک صاحب دا یار میڈا محبتاں آلا سچا کھرا پیارا انسان استاد محمود نظامی سئیں چھوڑ گئے۔ نظامی صاحب میں گواہ ہاں ۔۔۔ وسیب دی ترئے پیڑھیاں گواہ ہن تاریخ گواہ ہے جو جیون دا جو مطلب ہوندے تساں ہر پل اپنڑیں ہر ساہ نال جیونڑ دے مقصد نال گزارے نظرئے نال گزارے انسانیت نال گزارے ۔۔۔ حیاتی دے مقصد نال اتنی ایمانداری نبھیندا تہاکوں ڈٹھے ۔۔۔۔ وسیب دی اجوکی سرائیکی سیاست ، جمہوری روایت علمی فکری روشنی دی رانداں پچھوں تساں ہاوے۔۔۔ سرائیکی دھرتی تہاڈے سویں مہان انسان دی شعوری جڑت پاروں تاریخ دی سنجانڑ بنڑی ہے۔ شعور آدرش تے محبت کڈھاہیں مُکدی مردی نہیں ۔۔۔ پیڑھیاں در پیڑھیاں ٹردی ہے تساں امر ہیوے تاریخ دا اہم باب ہو نسلاں یاد رکھیسن‘‘
نامور سرائیکی شاعر اظہر کلیانی نے استاد محمود نظامی کو ان الفاظ سے خراج عقیدت پیش کیا:
محمود نظامی نانویں۔ ۔۔۔
تہاڈی ساڈی جیونڑی دا اسپیکٹ
لوکاں وچوں تھی کیں لنگھدے
لوکاں نال سانجھی سُرت
ساڈے تہاڈے جنازے وچ
شرکت کر کیں ساکوں
اِنسان بنڑا چُھڑیندی ہے
نہ تاں اساں اونویں آدم رہ ویندوں
نہ تاں اساں پُھلیں کنوں گھن کیں
چندر تاریں تانڑیں
تتراں کنوں گھن کیں
کرکدے ہوئے کانویں تانڑیں
بے موت ماریے ویندوں
ساڈی تہاڈی موت تیں سندھو سئیں
ساکوں پرچاونڑ نہ آسی
نہ کوئی اُڈدا ہویا پکھڑو آسی
نہ کہیں ونڑ وچوں گاندی ہوئی کوئل
ساڈے تہاڈے تڈے تیں بہہ کیں وینڑ کریسی
ساڈی تہاڈی موت تیں
جیکر کوئی آیا تاں
سندھو دا ملاح ہوسی
کہیں باغ دا مالھی ہوسی
یا وت کوئی پکھی واس ہوسی
جیرھا ساڈی جیونڑی دے اسپیکٹ کوں
کہیں ہیل اچوں ڈٹھی ودا ہوسی
کہیں سنگیت اچوں ڈٹھی ودا ہوسی
کہیں پیت پریت اچوں ڈٹھی ودا ہوسی
سرائیکی لوک سانجھ، سرائیکی جرنلسٹس سانجھ سمیت سرائیکی وسیب کی ادبی و ثقافتی تنظیموں  کی طرف سے استاد محمود نظامی کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا گیاہے۔

%d bloggers like this: