نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

روتے ہیں عوام کوئی پوچھتا ہی نہیں||حیدر جاوید سید

یہ پریشانی اس لئے بھی بجا ہے کہ موجودہ حکمران قیادت ماضی میں کہا کرتی تھی کہ پٹرول 45روپے لٹر فروخت کیاجاسکتا ہے، اْس وقت عالمی منڈی میں پٹرول فی بیرل 130ڈالر تھا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیدر جاوید سید
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سے ہماری تبدیلی سرکار اقتدار میں آئی ہے ،اس کے قائدین کی ماضی میں کہی ہربات الٹا ان کے گلے پڑرہی ہے۔ حکومت جب بھی کوئی نیا فیصلہ کرتی ہے ،سوشل میڈیا پر وزراء، وزیراعظم اور ان کے دوسرے رفقا کی پرانی تقاریر و ارشادات کی بہاریں لگ جاتی ہیں ،
کبھی جرمنی جاپان کی مشترکہ سرحد اور کبھی سال کے بارہ موسم ہوتے تھے ،اب وزیراعظم مہنگائی کے حوالے سے معاونین کے فراہم کردہ جو اعدادوشمار بتا کر اپنی حکومت کی متاثر کن کارکردگی بتاتے ہیں ،چند منٹوں میں ان اعداوشمار کی نادرستگی سامنے آجاتی ہے ۔
اچھا ویسے یہ روزمرہ کا معمول بن گیا ہے، اس پر کڑھنے، جلنے، کھپنے کی ضرورت بالکل نہیں، چلیں ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ گزشتہ شب ایک بجے کے لگ بھگ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن عوام پر بجلی بن کر گرا۔ ایک روز قبل وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے جہاں 2کروڑ خاندانوں کیلئے 120ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا، وہیں یہ بھی بتایا کہ ہمیں پٹرول کی قیمتیں بڑھانا پڑیں گی ،ایسا نہ کیا گیا تو خسارہ بڑھے گا اور محصولات کی وصولی میں بھی کمی ہوگی۔
عوام جو آسمان کو چھوتی مہنگائی کے ہاتھوں روزانہ جیتے اور مرتے ہیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر حیران و پریشان ہیں۔
یہ پریشانی اس لئے بھی بجا ہے کہ موجودہ حکمران قیادت ماضی میں کہا کرتی تھی کہ پٹرول 45روپے لٹر فروخت کیاجاسکتا ہے، اْس وقت عالمی منڈی میں پٹرول فی بیرل 130ڈالر تھا۔
آج جبکہ فی بیرل پٹرول 81ڈالر ہے ،اسی قیادت کے دورا قتدار میں فی لٹر پٹرول145.82 اور ڈیزل 142.52لٹر ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے اگر صرف جنوبی ایشیائی ممالک اور پاکستان کا موازنہ کیا جائے تو گزشتہ تین برسوں کے دوران دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلہ میں مہنگائی کی شرح پاکستان میں زیادہ چلی آرہی ہے۔
سال 2019-20ء میں افغانستان سے سری لنکا تک سات ممالک (ان میں بھارت بھی شامل ہے) مہنگائی کی مجموعی شرح 2.3سے 6.6 فیصد رہی جبکہ پاکستان میں ان دو سالوں میں مہنگائی کی شرح 9.7فیصد تھی جو اب بڑھ کر 14.3فیصد ہوچکی ہے۔
جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن وزارت خزانہ کے اس دعوے کے ساتھ جاری ہوا کہ ”زیادہ دبائو حکومت نے خود برداشت کیا”۔ بدقسمتی سے یہ دعویٰ بھی ویسا ہی ہے جیسا قبل ازیں کیا گیا تھا کہ بھارت میں پٹرول 250روپے اور بنگلہ دیش میں200روپے لٹر ہے۔
جبکہ اس ضمن میں روپیہ کی بھارتی و بنگلہ دیشی کرنسی اور ڈالر کے مقابلہ میں شرح تبادلہ کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کے پیشگی اعلان کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ تو کردیا گیا مگر یہ نہیں سوچا گیا کہ مہنگائی کے ہاتھوں ستائے شہریوں پر کیا گزرے گی۔
یہاں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ وزیراعظم نے چند دن قبل ملک میں موٹرسائیکلوں کی ریکارڈ فروخت کو کسانوں کی خوشحالی سے جوڑتے ہوئے اپنے معاونین کے جو اعدادوشمار عوام کے سامنے رکھے اس میں یہ نہیں بتایا گیاکہ پچھلے 6ماہ کے دوران 800سی سی سے 1000سی سی گاڑیاں رکھنے والے کتنے شہریوں نے گاڑیاں فروخت کرکے موٹرسائیکلیں خریدیں۔
دوسری جانب ملک میں دن بدن بڑھتی مہنگائی سے بدحال شہری ہیں جن کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں۔ تبدیلی و خوشحالی کے جو خواب دیکھائے گئے تھے وہ نہ صرف چکنا چور ہوئے بلکہ عوام کو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ اگر ملکی خزانہ ماضی کی طرح لوٹا نہیں جارہا اور 12ارب روپے کی روزانہ کرپشن سوا تین سال سے نہیں ہورہی تو حکومت اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے انہیں ذبح کرنے پر کیوں تلی ہوئی ہے۔
فی الوقت چینی کے نرخ مختلف شہروں میں 130 روپے سے 150روپے کلو ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ چینی کا موجود سٹاک اگلے پندرہ دن کے لئے ہے۔ دوسری طرف گندم کی فی من قیمت بڑھنے
سے آٹےکے نرخ بڑھے، اپنی مقامی ضروریات کو نظرانداز کرکے حکومت نے گندم افغانستان کو فروخت کرنے کی منظوری دی جوکہ صریحاً غلط فیصلہ ہے۔
موجودہ حالات میں رائے عامہ کا یہ موقف درست ہے کہ انہیں ”ذبح کرکے ثواب کی تمنا کی جارہی ہے”۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکمران قیادت آئی ایم ایف سے اپنے گزشتہ معاہدہ اور حالیہ یقین دہانیوں پر عمل کرنے کے سوا کسی پوزیشن میں نہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکمران قیادت کب تک عوام کو اعدادوشمار کے فریب سے بہلاتی رہے گی؟
نظام حکومت دستوری قانون سازی کی بجائے آرڈیننسوں سے چلایا جارہا ہے۔ دیگر فیصلے آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لئے کئے جارہے ہیں۔ سوال اٹھانے والوں کو جمہوریت کا دشمن قرار دیتے ہوئے حکومتی زعما جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں ان پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
ان حالات میں اب لوگ یہ سوال کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے مہنگائی کا جو سونامی برپا ہوگا اس سے انہیں نجات کون دلائے گا؟
ہم اسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ بھاری بھرکم اپوزیشن کے ہوتے ہوئے حکومت کو فکر فاقہ کچھ نہیں اپوزیشن بھی تو ویسے ایک دوسرے پر تبرے کا ثواب کمارہی ہے
جیسے کل جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری کہہ رہے تھے ”حکومت گرنے والی تھی کہ پیپلز پارٹی نے ہماری پشت میں چْھرا گھونپ دیا” حیدری صاحب اچھے آدمی ہیں پتہ نہیں کیوں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ حکومت کبھی بھی گرنے والی نہیں تھی پی ڈی ایم کی دو جماعتیں یہ سودا اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر بیچ رہی تھیں پیپلز پارٹی اور اے این پی کو بات ہی نہیں واردات بھی سمجھ میں آگئی۔
سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بعد استعفے کیوں نا دیئے انجمن محبان سول سپر میسی آف جاتی امرا شریف نے ؟
کاش حیدری سائیں صرف دودن قبل کے شہباز شریف کے اس بیان کو پڑھ لیتے کہ” ابھی حکومت گرانے کا وقت نہیں آیا” سمجھنے والوں کیلئے اس میں نشانیاں بہت ہیں اگر سمجھنا چاہیں تو

یہ بھی پڑھیں:

About The Author