دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مسافر۔ اک جہان حیرت||سجاد جہانیہ

جنگلوں، پہاڑوں، گھاٹیوں میں سرگرداں انسان نے جب کسی غار کے پیٹ میں یا کسی پیڑ کی شاخ پر بیٹھ کر اشاروں کنایوں میں اپنے کسی ہم جولی کو راستے کا حال دیا ہو گا تو سفرنامے کی ابتدا ہوئی ہوگی۔

سجاد جہانیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی حرکت سے عبارت ہے اور سفر زندگی کا استعارہ ہے۔ سفر اپنے اندر کا ہو یا بیرون کا، مسافر پر حیرت کے در وا کرتا ہے۔ تین سو چھتیس صفحات کو محیط ”مسافر“ کے تجربات بھی پڑھنے والے کو جا بہ جا حیران کرتے ہیں۔ دیکھے ہوئے مناظر کے ان دیکھے پہلو دکھاتے ہیں۔

یوم الست جب بھی طلوع ہوا تھا، اسی وقت سے انسان سفر میں ہے یا شاید اس سے بھی پہلے کا سفر نصیب۔ اس کی ترقی کا راز بھی شاید اسی سفر میں ہے کہ سفر نصیب، ظفر نصیب ہوا کرتا ہے۔

جنگلوں، پہاڑوں، گھاٹیوں میں سرگرداں انسان نے جب کسی غار کے پیٹ میں یا کسی پیڑ کی شاخ پر بیٹھ کر اشاروں کنایوں میں اپنے کسی ہم جولی کو راستے کا حال دیا ہو گا تو سفرنامے کی ابتدا ہوئی ہوگی۔

نئے دیاروں کی جستجو میں پا بہ رکاب ہونا اور پھر اس جادہ پیمائی کا حال سننا، سنانا کچھ ایسا دل چسپ عمل ہے کہ نہ تو زبان اور قلم سے سفر کا حال کہنے والے تھکتے ہیں اور نہ ہی سننے، پڑھنے والوں کو اکتاہٹ کی اونگھ آتی ہے، پھر راوی اگر کہنے کا ڈھنگ جانتا ہوتو گویا وقت کی نبض تھم جایا کرتی ہے۔ ”مسافر“ کا داستان گو بھی بات کہنا اور اسے مخاطب کے دل تک اتارنا بخوبی جانتا ہے۔

یادش بخیر! ایک زمانہ تھا جب بیمار اور آسیب کے شکنجے میں آئے افراد کسی حکیم باتدبیر کے مطب کا رخ کرنے کے بجائے پھونکوں کی تلاش میں سرگرداں رہا کرتے تھے۔ پیر خانوں سے لے کر محلے کے امام مسجد تک کی پھونکوں میں تاثیر مسیحائی پائی جاتی تھی۔ لواحقین کو ہدایت ہوتی کہ ایک بوتل تلاش کرو اور اس میں سات مسجدوں کا پانی بھر کر لاؤ۔ بوتل آ چکتی تو اس کاک ٹیل پر کچھ پڑھ کر پھونکا جاتا۔ لیجیے! مریض کی دوا تیار ہے۔ سعود عثمانی کا تعلق دیو بند سلسلہ سے سہی تاہم نسخہ انہوں نے بھی یہی آزمایا ہے۔

پاکستان، ہندوستان، ترکی، ایران، برطانیہ، امریکہ اور تھائی لینڈ، سات گھاٹ کا پانی جمع کیا ہے اور اس پر فصاحت لسانی اور جادو بیانی کی ایسی پھونک ماری ہے کہ ”روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی“ ۔

”مسافر“ گو کہ روداد سفر ہے مگر اس کی نثر پر کبھی فکشن کا گماں گزرتا ہے۔ کہیں یہ تاریخ کی کتاب لگتی ہے اور کبھی لگتا ہے کہ جاڑوں کی خاموش شب ہے اور لحافوں میں بیٹھ کر مونگ پھلی کھاتے ہوئے دل چسپ قصہ کہا جا رہا ہے۔ جا بہ جا اشعار کا تڑکا ہے جو ”وہ کہیں اور سنا کرے کوئی“ والی کیفیت پیدا کرتا ہے۔

یہ صرف سفر کا احوال نہیں، آنکھ کی پتلی اور تخیل کی لوح پر مرتسم ہونے والے مناظر کی روداد ہے۔ یہ اس مسافر کا روزنامچہ ہے جس کی ظاہری اور باطنی حسیات بیدار اور فعال ہیں۔ اس کا لطیف اور کثیف بدن جو جھیلتا ہے، مسافر اسے بے کم و کاست بیان کر دیتا ہے۔ ہندوستان کے سفر میں جامع مسجد کی سیڑھیوں میں بیٹھ کر اور قلعہ کی سیر کے دوران ظاہری آنکھ بند کر کے مسافر نے جو صدیوں پہلے کے مناظر دیکھے اور پڑھنے والوں کے لئے تصویر کیے ہیں تو جانیے کوئی ٹائم مشین ہے جس میں بیٹھ کر آپ مسافر کے ساتھ ماضی کے آنگن میں آن اترے ہیں۔

تاثرات والے صفحے منہا کر دیے جائیں تو اس سفرنامہ کا پھیلاؤ تین سو بارہ صفحات پر ہے۔ گو یہ سات ملکوں کے سفر کا احوال ہے تاہم کتاب میں ملنے والی جگہ کا تناسب دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ کچھ ملکوں میں تو سعود عثمانی صرف پانی پینے کو ہی گئے۔ ہندوستان کا حال ایک سو اسی صفحات پر ہے۔ ترکی کا 72، ایران 12، برطانیہ 28، امریکہ 40 اور تھائی لینڈ فقط 10 صفحات کو محیط ہے۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ عزت اجداد بچاتے ہوئے کوئی لکھنے والا تھائی لینڈ یاترا کے 10 صفحات بھی قلم بند کر جائے تو بڑی کامیابی ہے۔

ہندوستان کا سفر نامہ کتاب کا اٹھاون فیصد ہے یعنی ایک سو اسی صفحات۔ گو سبھی ملکوں کا حال دل پذیر ہے۔ ترکی والے حصے میں ”میں قاسم پاشا کا ہوں“ کے عنوان تلے دو ابواب میں 2016 ء کی ناکام فوجی بغاوت کے جو مناظر قلم بند کیے گئے ہیں، وہ اس سے پہلے کم از کم میرے علم میں نہ تھے۔

تاہم ہندوستان کا حال کہتے وقت سعود عثمانی کا قلم بلندیوں پر پرواز کرتا نظر آتا ہے جہاں زمانے کے صیغے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ماضی اور حال کی کوئی تفریق نہیں رہتی، دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

اور تو اور نوجوان سفرنامہ نگار کے اندر چھپا چھوٹا سا مستنصر حسین تارڑ جو تھائی لینڈ کے غسل آفتابی والے ساحلوں پر بھی سویا رہتا ہے، ہندوستان میں کہیں کہیں بیدار نظر آتا ہے۔ لال قلعہ میں اچانک ملنے والی زنیرہ کی ہنسی پر نہر بہشت کے جھرنوں کا گمان یہیں ہندوستان میں ہوتا ہے اور اس کے رخساروں کی سرخی سے لال قلعے کا مزید لال ہوجانا بھی یہیں کی واردات ہے۔

پھر جب دوسری ملاقات اختتام پذیر ہوتی ہے تو مسافر کا یہ جملہ دیکھئے کیسا معنی آفریں ہے اور کیفیات کا اک جہان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

” کچھ ملاقاتیں جدائی کی طرح ہوتی ہیں۔ خراشیں ڈال کر گزر جاتی ہیں۔ یہ ملاقات ایسی ہی سینہ خراش تھی۔ یہ فیصلہ ہی نہ ہوسکا کہ ملاقات کو یاد رکھوں یا جدائی کو“ ۔

اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی ریڈیبلیٹی ہے۔ یہ خود اپنے آپ کو پڑھواتی ہے۔

اگر آپ فکشن پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ اگر آپ کی دل چسپی تاریخ میں ہے۔ اگر آپ کو بدلتے مناظر کے واقعات پڑھنا پسند ہیں۔ اگر آپ ملک ملک کی شخصیات اور ثقافت بارے جاننا چاہتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اگر آپ اچھی اور رواں نثر کے عاشق ہیں تو یہ کتاب ”مسافر“ آپ کے لئے ہے۔

آخر میں مجھے پھر ابتدا سے رجوع کرنا ہے۔

زندگی حرکت سے عبارت ہے اور سفر زندگی کا استعارہ ہے۔ سفر حیرت کے در وا کرتا ہے اور تین سو چھتیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک جہان حیرت ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

سجاد جہانیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author