سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خبر کے مطابق فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث محکمہ تعلیم میں ایک لاکھ سے زائد سیٹیں خالی ہونے کی بنا پر پنجاب کا پہلا نمبر، ایک رپورٹ کے مطابق اساتذہ 91514، بی ایس ٹی، ایس ایس ٹی 5153، ایس ای ایس ای 22538، ایس ایس ٹی 10987 کی پوسٹیں تعیناتی کی منتظر ہیں۔ ایس ایس ایس 838، ہیڈ ماسٹر، مسٹریس 614، پرنسپل کی 871 پوسٹیں خالی ڈیکلیئر ہیں۔ فنڈز جاری نہ ہونے پر بھرتیوں کا این او سی روک دیا گیا ہے۔ محکمہ تعلیم پنجاب کا منظور شدہ خالی پوسٹوں کے لحاظ سے پہلے نمبر پر آنا صوبائی حکومت کی کارکردگی کا پول کھولنے کیلئے کافی ہے کہ تعلیم جیسے اہم ترین شعبے کو حسب روایت نظرانداز کرنے کی روش پر یہ بھی اپنے پیشروں کی طرح گامزن ہے۔ پاکستان میں تعلیمی معیار کس حد تک گرچکا ہے اس کا اندازہ اس مرتبہ انٹر اور میٹرک کے رزلٹ میں نمبرز تھوک کے حساب سے باٹنٹے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے ڈگریاں تو دھڑادھڑ بانٹ رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ وہ معیار تعلیم بھی بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی قلت ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کلاسز میں طلبا کی تعداد زیادہ ہوگی تو ایک استاد کے لئے اس کو Manage کرنا مشکل ہوجائے تو ایسے میں اس سے انفرادی طور پر طلبا پر توجہ دینے کی توقع کرنا عبث ہے۔
تعلیم اور صحت دونوں کسی بھی ملک کی ترقی میں انتہائی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے ہاں کسی بھی حکومت نےان کی طرف توجہ دینے کی زحمت ہی کبھی نہیں کی اور اسی لئے تو یہ دونوں حساس اور اہم ترین شعبے اپنی حالت پر ماتم کناں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد عوام توقع کررہے تھے کہ وہ ان دونوں شعبوں کی بحالی کی طرف خصوصی توجہ دیں گے لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ وہ بھی سابقہ حکمرانوں کی روش پر گامزن ہیں حتیٰ کہ ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی تاحال ایک خواب ہے۔ اگر میں جنوبی پنجاب کی ہی بات کروں تو سب کچھ آسانی سے ہی سمجھ آجائے گا کہ نجانے ایسی کون سی مجبوریاں ہیں کہ یہاں پر تعلیمی ادارے اس تیزی کے ساتھ نہیں بنائے جارہے جس کی اس غریب و افلاس میں جکڑے علاقے کو ضرورت ہے۔ پاکستان کا زرعی لحاظ سے زرخیز ترین علاقہ یوں تو قیام پاکستان کے بعد سے ہی جان بوجھ کر نظرانداز کیا جارہا ہے لیکن موجودہ حکومت نے عوام کو جھوٹی تسلیاں دے کر رام کرنے کی جو کوشش کی اس سے ان کے دل ٹوٹ گئے ہیں اب جبکہ حکومت اپنے اقتدار کے ساڑھے 3برس مکمل کرچکی ہے تو 90فیصد اس کے وعدے ادھورے اور نامکمل ہیں۔ چوتھا سال تو یوں بھی الیکشن کا سال تصور کیا جارہا ہے اور اس میں حکومت اپنے منصوبوں کو مکمل کرنے پر توجہ دے گی نہ کہ عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کو یقینی بنائے گی یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف سے عوام شدید نالاں ہیں اور وہ اپنا یہ غم و غصہ آئندہ الیکشن میں ضرور دکھائیں گے۔
پاکستان کے غریب عوام نے مسلم لیگ (ن) اور پی پی کو 2،2 باریاں دیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے عوام کی حالت زار بہتر بنانے کی بجائے اپنی جیبیں بھرنے پر ہی تمام تر توجہ مرکوز رکھی اور آج جب غریب عوام کے لئے زندگی گزارنا جان جوکھوں کا کام بن گیا ہے تو ایسے میں حکومت کی طرف سے عوام کو جھوٹے سپنے دکھانے کے سلسلے کو جاری رکھنا انتہائی تشویشناک ہے کہ ایک مرتبہ پھر عوام کو دھوکے میں رکھنے کا سفر جاری ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب عوام کے لئے رشتہ جسم و جاں برقرار رکھنا انتہائی مشکل اور کورونا کے باعث 3کروڑ سے زائد عوام بیروزگار ہوچکے ہیں تو ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت عوام کو روزگار فراہم کرنے کے لئے انتظامات کرتی مگر اس کو کیا کہا جائے کہ اس نے تو صرف محکمہ تعلیم جیسے حساس شعبے میں ایک لاکھ سیٹیں پنجاب میں ہی عرصہ دراز سے خالی رکھی ہوئی ہیں اور یہ تک سمجھنے کی زحمت نہیں کی جارہی کہ اس سے ملک و قوم کو کس قدر نقصان اٹھانا پڑے گا۔
یونیورسٹیاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں پڑھے لکھے گریجوایٹس کی فوج مارکیٹ میں بھیج رہی ہیں مگر مجال ہے کہ حکومت کے کانوں پر جوں تک بھی رینگی ہو اسے تو بس اپنے ’’اہم‘‘ مسائل سے ہی فرصت نہیں کہ وہ تعلیم اور عوام کو روزگار کی فراہمی جیسے ’’غیراہم‘‘ ایشوز کی طرف بھی توجہ دینے کی کوشش کرے۔ عوام سے جڑے ایشوز سے حکومت جس طرح بے اعتنائی برت رہی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے اور آنے والے دنوں میں صرف بیروزگاری کا ایٹم بم تمام تر حکومتی کارکردگی پر جھاڑو پھیرسکتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 70فیصد سے زائد پڑھے لکھے طلبا بیرون ملک جانے کے خواہش مند ہیں تاکہ وہ اپنے مستقبل کو سنوارسکیں کیونکہ وطن عزیز میں ان کا مستقبل قطعاً محفوظ نہیں۔ہماری حکومت کو نوجوانوں اور ان سے جڑے مسائل سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے اسی لئے تو نوجوانوں کی ایسی درگت بن رہی ہے کہ اب تو 60فیصد آبادی پر مشتمل نوجوان پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے پر پریشان اور شرمندہ نظر آرہے ہیں یہی نہیں بلکہ اوورسیز پاکستانیز بھی وطن عزیز کی تشویش میں مبتلا ہیں کہ ان حالات میں بہتری کی کوئی توقع نہیں ہے اور حکومت بھی حسب روایت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔
یوں تو تحریک انصاف عوام سے کیا ہوا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کرپائی لیکن تعلیمی شعبے کے ساتھ جو کھلواڑ پچھلے کچھ عرصہ سے جاری ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر حکومت پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملازمتیں دینے سے انکاری ہے تو پھر یونیورسٹیوں کالجز کو تالے کیوں نہیں لگادیتی کیونکہ جب پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار ہی نہیں ملے گا تو معاشرے میں بیروزگاری کا ایٹم بم جو پیدا ہوگا سو ہوگا وہیں نوجوان بھی فرسٹریشن کا شکار ہونگے۔ ایک ایسے وقت میں جب غیرملکی یونیورسٹیاں بڑی تعداد میں پاکستان کے زرخیز دماغ ہر سال یہاں سے کھینچ لیتی ہیں تو ہم یہ حکمرانوں سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ پھر ملک کس طرح ترقی کرے گا کیونکہ یہ زرخیز ذہن ہی تو ہیں جنہوں نے اس ملک میں نئے نئے آئیڈیاز اور ایجادات کرنی تھیں وہ تو بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں کیونکہ ہماری حکومت کو ان کی خداداد صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں قطعاً کوئی دلچسپی ہی نہیں اور یوں وطن عزیز کا ایک بڑا حصہ برین ڈرین ہورہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان ہمہ وقت چیف منسٹر پنجاب عثمان بزدار کی کارکردگی کی مالا جپتے رہتے ہیں لیکن کیا کبھی وہ ان تلخ حقائق کی طرف بھی توجہ دینے کی زحمت کریں گے کہ صرف پنجاب میں محکمہ تعلیم میں ایک لاکھ سے زائد سیٹیں خالی پڑی ہوئی ہیں تو ایسے میں ادارے کا Smoothly چلتا محض ایک خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کو نوجوان اقتدار میں لے کر آئے تھے لیکن اب ہر نوجوان حکومتی کارکردگی سے انتہائی پریشان ہے کہ جو حکومت 3برس سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود عوام کو ڈلیور نہ کرسکی اس سے مزید بہتری کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ وطن عزیز میں قابل پڑھے لکھے اور ذہین لوگوں کی کوئی کمی نہیں لیکن چونکہ ہماری حکومت کو عوام نامی مخلوق سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اسی لئے تو عوام بالخصوص نوجوانوں کو ہری جھنڈی کروادی ہے کہ وہ اپنے تئیں زندہ رہنے کا بندوبست کریں۔ لے دے کے ایک یوتھ لون سکیم متعارف کروائی گئی ہے لیکن اس میں سے کتنے لوگوں کو قرضہ مل رہا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ نوجوان نسل کے نمائندہ عثمان ڈار قرض کے طریقے بہتر بنانے کی بجائے عوام کو ہی غلط قرار دے رہے ہیں جو کسی طور درست نہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت محکمہ تعلیم سمیت دیگر محکموں میں عرصہ دراز سے بڑی خالی اسامیوں پر فی الفور بھرتی کرے تاکہ چلو کچھ لوگوں کو ہی روزگار میسر آجائے۔ بیروزگاری کا عفریت وطن عزیز کی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ بنتا جارہا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ ملک کے لئے بڑا مسئلہ بنے، حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ