رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے موسموں کا تعلق جنگلات، باغات اور ہر خالی جگہ پر مقامی درخت لگانے سے ہے۔ ہمارے ہاں، سب علاقوں میں نہری نظام قائم ہونے سے پہلے جہاں کہیں بھی پانی کی گزرگاہ ہوتی، بارش کے قطرے کبھی کبھار صحیح پڑ جاتے تو ویرانے آباد رہتے۔ سب حیات انسانوں سے نہیں، اور سچ بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے محدود علاقوں کا تعین کرکے صرف وہیں رہنا چاہیے۔ وہ ویرانے نہیں، آباد ہیں، مگر پرندوں، ہر نوع کی جنگلی حیات اور جانوروں سے۔ ان کی اپنی دنیا ہے اور ان کی دنیا قائم رہے تو انسانوں کی بستیوں اور بڑے شہروں کی ماحولیات کو نمی، صاف ہوا اور آکسیجن‘ جو ہماری سانس اور رگوں میں ہر لمحے برق رفتاری سے گردش کرتی ہے، مہیا کرتے رہیں گے۔ ماحول ایک کھلے وسیع اور باہم جڑے ہوئے حیاتیاتی نظاموں سے فطری طور پر مرتب ہے۔ ایک ہی نظام کی جزئیات، کڑیاں یا چھوٹے بڑے حصے، سب ایک دوسرے کے سہارے رہتے رہے ہیں۔ ویرانے بھی آباد رہے، انسان بھی صحت مند اور ماحول کا فطری توازن سب کو ان کی ضرورت کے مطابق فراہم کرنے میں مدد گار رہا ہے۔ ہزاروں بلکہ کئی ہزار سالوں سے ایسا ہی تھا۔ کرۂ ارض میں کشادگی اور فراوانی کے سمندر بہتے تھے۔ ہر ضرورت مند ہاتھ ڈالتا اور اپنی بقا کے لیے نکال لیتا‘ لیکن انسان نے اپنی ضروریات کے احاطے اتنے بلند اور وسیع کر لیے ہیں کہ نہ وہ ارضی ماحول کا فطری توازن رہا اور نہ وہ بقائے حیات۔ کمزور اور ناقابل دفاع مخلوقات آہستہ آہستہ معدوم ہونے لگیں۔
جن کو گل رنگ موسموں سے عشق ہے، فرصت بھی اور اپنی زندگی میں کچھ توازن بھی کہ روزانہ کی گہما گہمی سے ذرا نکل کر سامنے لگے درخت، گلاب یا صرف سبزے پر کچھ دیر نظر جما سکیں، وہ جانتے ہیں کہ لاکھوں کہکشائوں میں سے ایک زمین اپنے مدار میں گردش کرتی رہتی ہے۔ کتنا حسین اور دلکش۔ ہم اس پر قدم جمائے، چلنے پھرنے والے صرف اس کی کوکھ سے نکلتی ندیاں، نالے، دریا، پہاڑ، وادیاں، صحرا اور بدلتے موسموں پہ ہی ذرا ٹھہر کر لمبا سانس لے کر غور کریں تو اس کی رعنائیوں کا کچھ ادراک ہو سکے۔ ہمیں تو فرصت ہی نہیں، جب تک پھر اس کی خاک کا حصہ نہ ہو جائیں۔ پتا نہیں ہم کن فکر مندیوں کا شکار ہیں، کن دھندوں میں ہم نے زندگیاں برباد کر ڈالیں، کبھی زمین کے شاہکاروں کے قریب بھی بھٹک کر دیکھیں، بھول کر ہی ان کی آغوش میں آ بیٹھیں، سارے شاید نہیں‘ بہت سے غم بھول جائیں گے۔ ایک غنودگی سی چھا جاتی ہے، وہ نہیں جس کا تعلق نیند سے ہے، بلکہ ایسی کہ زمانے سے لگے زخم اور تلخیاں ایک دم جادوئی اثر سے جسم و روح سے ایسے پرواز کر جائیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ ایسے فطری ماحول میں رہنے والے خوش و خرم، صحت مند، پر رونق، با مقصد اور قابل رشک زندگیاں گزارتے ہیں۔ ان سے بہتر مقدر اور کس کے ہو سکتے ہیں۔
کیا کریں بہت جی لیا، بتاتے ہوئے ذرا شرم آتی ہے، مگر ہماری عمر کے لوگوں کو یاد ہو گا کہ ہم جہاں، جن دیہات میں بھی تھے، فطری ماحول تھا، کھلی چراگاہیں، صدیوں سے ہرے بھرے قدرتی جنگلات کے عین وسط میں ہماری جھونپڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ ہوش سنبھلنے کی کئی باتیں مجھے یاد ہیں، دائمی نقش ہیں، دل میں اور روح میں۔ صبح، شام سفید اور کالے تیتر بولتے۔ کوئی شکاری کبھی کبھار آ نکلتا تو ایک دو پکڑ کر لے جاتا۔ مجھے نہیں یاد کہ ہماری چھوٹی سی بستی سے کسی نے تیتر کو نشانہ بنایا ہو۔ جنگل میں خرگوشوں کی بہتات تھی۔ بارش ہوتی تو کچھ پکڑ کر لے آتے اور گوشت تقسیم ہوتا۔ ہر طرف بلند و بالا‘ کئی فٹ لپیٹ والے تنے کے پیلوں کے درخت تھے۔ سینکڑوں اونٹ ان کے اندر گھومتے پھرتے اور جاڑے کی راتوں میں ان کو پڑاؤ ڈالے دیکھا ہے۔ جن درختوں کے سائے میں بڑوں کی محفلیں جمتیں ان کے اوپر طوطوں کے گھونسلے ہوا کرتے تھے۔ ہرنوع کا پرندہ اور جانور سکول آتے جاتے دیکھتے تھے۔ انگریزوں کے بنائے نہری نظام سے پہلے سب جنگلات تھے۔ اس سے پہلے لوگ بھوکے نہیں مرتے تھے، خوشحال تھے۔ جانور، کھیت، پھل، سبزی اور زراعت سب کی کفالت کے لیے کافی تھے۔ اب چونکہ ہم سب نہری زراعت سے فیض یاب ہو رہے ہیں، اسے بے ڈھنگ یا بے ہودہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا، مگر اتنا ضرور عرض کروں گا کہ اس نظام کے پیچھے نوآبادیاتی اور استعماری مفادات تھے۔ لوٹ مار کرنا تھی۔ نہری زراعت کے لیے جنگلات کا صفایا کیا گیا۔ کچھ محدود علاقے جنگلات کے لیے چھوڑ دئیے‘ جنہیں آج ہم کہتے ہیں کہ انگریز کے قائم کردہ ہیں۔ اس موضوع پر دو مؤرخ، عمران علی اور ڈیوڈ گلمارٹن کا تحقیقی کام سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ انگریز سرکار مشرقی پنجاب سے ”کاشتکار‘‘ قومیں آباد کرنے کے لیے کینال کالونیز میں مفت زمین تقسیم کرتی رہی۔ مقامی لوگ ان کی اور نئے آباد کاروں کی نظر میں ”جنگلی‘‘ تھے۔ آج کل بھی یہ لقب کہیں کہیں زبان زد عام تو نہیں، ذہنوں میں چسپاں ضرور نظر آتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نوآبادیاتی ترقی نے پنجاب اور دیگر حصوں کا فطری نظام بگاڑ ڈالا۔ ہم جسے ترقی کا نام دیتے ہیں، اس کی قیمت جنگلات، حیوانات اور ماحولیاتی توازن کھونے کی صورت میں بھاری پڑی ہے۔
ہمارا نہیں یہ سب بعد از نوآبادیاتی ریاستوں کا معاملہ ہے کہ جو ترقی کی لکیر جو سامراجی چھوڑ گئے ہم نے اسے حرف آخر سمجھ کر گلے سے لگا لیا‘ اور آج تک اسی کے فقیر ہیں۔ کبھی یہ بھی نہ سوچا کہ آخر وہ سامراجی ”ترقی‘‘ کا جال کیوں پھیلا رہے تھے۔ ایک بات تو طے ہے، وہ ہماری محبت میں تو مرتے مارتے‘ تاج و تخت الٹتے، ”بغاوت‘‘ کرنے والوں کو پھانسیوں پر لٹکاتے‘ یہاں نہیں آئے تھے۔ ششی تھرور کا نام آپ نے شاید سنا ہو، عالم، فاضل اور زبردست مقرر ہیں۔ انگریزی دور کے بارے میں ان کی کتاب An Era of Darkness: The British Empire in India نے چند سال پہلے ایک طوفان برپا کیا تھا۔ اس سے پہلے بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اپنے ہی ملکوں کے ساتھ بھی ماضی کی سامراجی قوتوں نے وہی کیا‘ جو یہاں ہوا۔ سب قدرتی رنگ، بہاریں اور رونقیں ختم کرو اور جعلی آسودگی کے لیے لوہے اور سیمنٹ کے جنگلات کھڑے کر دو۔ جب میں فطری ماحول کی تباہی کا یہ نوحہ لکھ رہا ہوں تو سکاٹ لینڈ میں بیس ممالک کے نمائندے سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ سوچ رہے ہیں کہ صنعتی ترقی کے باعث زمین کا درجہ حرارت بڑھنے سے موسموں پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں اور جو ہر روز تباہیاں ہو رہی ہیں، ان سے پیدا ہونے والے موجودہ اور آنے والے دنوں کے خطرات سے کیسے نمٹا جائے۔ ان ممالک کے بڑے کانفرنس میں باری باری یہ تقاریر فرماتے رہے کہ جنگلات کو تحفظ دیا جائے اور ان کی کٹائی کو ہر صورت میں روکا جائے۔ ہم تو اب پانی، صاف ہوا، قابل کاشت زمین اور جنگلات کے چھاتے سے روز بروز محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ سنبھل جائیں۔ یہ پھیلتے ہوئے شہر، یہ گندگیوں میں لپٹے دیہات اور گلی کوچے، آبادی کا بڑھتا ہوا سیلاب، سوچیں ہم آنے والی نسلوں کے لیے کیا چھوڑ رہے ہیں، چلو، اپنے حصے کا کام ہی کر لیں، کچھ اور درخت کچھ اور پودے، شاید روٹھے پرندے واپس آ جائیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ