طیب بلوچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے قومی اخبارات نے گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے ملک گیر احتجاج کی خبر میں بھی اپنا بغض اور تعصب نہ چھپا سکے۔ ایکسپریس نیوز پیپلز پارٹی کے ساتھ پی ڈی ایم کو خبر میں گھسیڑ لایا جبکہ جنگ نے شہ سرخی میں اپوزیشن لکھ کر ذیلی سرخی میں ن لیگ کو پیپلز پارٹی کے ساتھ نتھی کردیا۔
حقیقت اس کے مکمل برخلاف ہے نام نہاد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی جی ایچ کیو میں ملاقات اور لندن یاترا پہ کلچ پلیٹوں کی مرمت کرانے والے پنجاب کے ہوائی انقلابی لیڈر نواز شریف ان دنوں اہم فون سننے میں لگے ہوۓ ہیں بھلا ایسے میں عوام کے استحصال کے خلاف وہ کیسے احتجاج کرسکتے ہیں۔ ن لیگ اور اسکی ہائی جیک کردہ پی ڈی ایم کا 29 اکتوبر بروز جمعہ کو کوئی ایک بھی عوامی احتجاج میڈیا پنڈت ثابت کرکے دیکھائیں۔
جمعہ کو پاکستان کے 160 اضلاع اور تحصیل سطح پر صرف اور صرف پاکستان پیپلز پارٹی کا احتجاج ہوا۔ ہر ضلع میں کے گئے احتجاج کا ریکارڈ ان اخبارات اور میڈیا ہاؤسز کے پاس موجود ہے کیونکہ ان کے نمائندوں نے اپنے اپنے اضلاع کی خبریں بھی فائل کی ہونگی اور معلومات بھی اپنے متعلقہ میڈیا ہاؤسز کو بھیجی ہونگی لیکن پیپلز پارٹی کے بغض میں ہر ضلع کی خبر چھپنا تو درکنار لیکن ایونٹ رپورٹنگ کی مجبوری کی وجہ سے خبر تو چھاپی لیکن تعصب اور بغض کو اپنی صحافتی دیانتداری سے زیادہ مقدم جانا۔
میڈیا کے ان ہی کرتوتوں کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کراچی میں سانحہ کارساز کے شہدا کی یاد میں کیے گئے جلسے میں میڈیا کی اس نوٹنکی اور پیپلز پارٹی سے بغض کو عوام پر عیاں کیا تھا جس کی وجہ سے میڈیا کے پنڈت بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان پر آگ بگولہ ہوگئے تھے لیکن اب حقیقت عوام کے سامنے ہے کہ کس طریقے سے یہ خبر میں مختلف زاویے گھسیڑ کر "مینوپولیشن” کے ذریعے عوام کی ذہن سازی کرتے ہیں۔
یہی میڈیا تھا جس نے ن لیگ کی جانب سے پی ڈی ایم کی خالق جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو کونے میں لگانے کے بعد اور پی ڈی ایم کو ہائی جیک کرنے کے بعد عوام میں جھوٹے تاثر کی ترویج کی اور پروپیگنڈہ کیا کہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ پیپلز پارٹی کی ڈیل ہوگئی ہے لیکن بعد میں اب شہباز شریف کی اپنے آقاؤں سے ملاقات اور ان آقاؤں کی جانب سے نواز شریف کے ساتھ فونک رابطوں نے اس معاملے کی قلعی کھول دی۔
پیپلز پارٹی ہمیشہ میڈیا فرینڈلی رہی میڈیا کی جانب سے اپنی قیادت کی کردار کشی سے لیکر میڈیا ٹرائل کو باخوشی سہا۔ واحد پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ہے جس کے خلاف جھوٹی خبروں پر ہمشیہ جھوٹے کیسز بنتے رہے لیکن اقتدار میں آکر بھی اسکی قیادت نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سارے ستم کے باوجود میڈیا کو مظبوط کرنے کی کوشش کی۔ آخر صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے تبھی تو بلاول بھٹوزرداری نے میڈیا کو آئنیہ دکھانے کی کوشش کی لیکن یہ الٹا ان پر چڑھ دورے۔
پیپلز پارٹی کے خلاف میڈیائی تعصب اور بغض کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں لیکن اس حوالے سے پھر کبھی تفصیل سے آگاہ کریں گے تاہم فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔ بہرحال پیپلز پارٹی کے ملک گیر احتجاج سے متعلق الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی کوریج کو پھر سے غور سے دیکھیں آپ کو اس سے متعلق خبروں، تجزیوں میں یہ تعصب واضح نظر آۓ گا کیونکہ میڈیا پہ بیٹھے پنڈت پیپلز پارٹی کو لاڑکانہ تک محدود کرنے کی قسم کھاۓ ہوۓ ہیں اور اسی کے ان کو لفافے ملتے ہیں یہ بھلا آپ کو کیسے بتاسکتے ہیں کہ پاکستان کے تمام اضلاع میں پیپلز پارٹی نے مہنگائی، بے روز گاری اور عوام کے سروں پر زور زبر کی مسلط کردہ نااہل حکومت کی ناکامی کے خلاف بیک وقت تاریخی احتجاج کرکے پاکستان کی اپوزیشن کی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
بھٹو روس میں بھی زندہ ہے ۔۔۔ طیب بلوچ
بلاول: جبر و استبداد میں جکڑی عوام کا مسیحا ۔۔۔ طیب بلوچ
سلیکٹرز آصف علی زرداری سے این آر او کیوں چاہتے ہیں؟ ۔۔۔طیب بلوچ
را کے مبینہ دہشتگردوں سے بھارتی جاسوس کی وکالت تک کا سفر ۔۔۔ طیب بلوچ
عالمی استعمار کے چابی والے کھلونے آصف علی زرداری کو کیوں مارنا چاہتے ہیں؟ ۔۔۔ طیب بلوچ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر