حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کہا جارہا ہے کہ ’’برداشت کی پالیسی کو کمزوری نہ سمجھا جائے‘‘ اور کمزوری کیا ہوتی ہے۔ وزیر داخلہ فرمارہے تھے ’’جی ٹی روڈ ملک کی دفاعی لائن ہے‘‘ یہ سطور لکھتے وقت اس دفاعی لائن پر گیارہ دنوں سے ایک کالعدم تنظیم کے کارکنان قابض ہیں اور حکومت نے اپنی دفاعی لائن پر خندقیں کھودلی ہیں۔
وزیر آباد سے سوہاواہ تک کم از کم چار بڑے پلوں کی جو درگت بنائی گئی اسے کیا نام دیں۔ جو معاملہ گیارہ دن قبل لاہور میں طے ہوسکتا تھا وہ اب کیسے طے ہوگا۔ بالخصوص اس صورت میں جب برین واشنگ نے ذہنوں میں یہ بیٹھادیا ہو کہ ہمارے سوا سب غلط ہیں۔ حکومت کفر پر قائم ہے۔
لانگ مارچ کے دوران احتجاج کرنے والوں نے جن پولیس اہلکاروں اور ’’چند دوسروں‘‘ کو یرغمال بنایا تھا جمعہ کے روز طویل مذاکرات کے بعد انہیں پولیس اور رینجرز حکام کے حوالے کیا گیا۔ حوالگی کے اس موقع پر کی گئی گفتگو حیران کن تھی۔ ریاست اور حکومت کفار مکہ قرار پائے اور لانگ مارچ والے ’’مدنی مجاہد‘‘۔ یہ سوچ ہے جو پچھلے سات آٹھ برسوں سے پروان چڑھی۔ اس سوچ کے پروان چڑھائے جانے میں ’’دیگر‘‘ کے ساتھ شریف خاندان بھی مجرم ہے۔
کبھی اس خاندان نے اس سوچ کو پیپلزپارٹی اور سلمان تاثیر کے خلاف تلوار بنایا تھا پھر یہ تلوار اس کے خلاف استعمال ہوئی اس دوسرے مرحلہ میں تحریک انصاف اور ریاست نے کاندھے پیش کئے اب دونوں بھگت رہے ہیں۔
کیا 93فیصد مسلم آبادی والے ملک میں فقط یہی عاشقان رسول معظمؐ ہیں؟
ہمیں تاریخ کے اوراق الٹنے پڑیں گے۔ کیا ہم ریاست کو آئینہ دیکھاسکتے ہیں۔ خصوصاً اس ‘‘موسم میں‘‘؟
یہ ایک سوال ہے اس پر غور کیجئے اور ساتھ ہی اس بات پر کہ کالعدم مذہبی تنظیم (لانگ مارچ کرنے والی) کے قلبی طور پر قریب سمجھے جانے والے مفتی منیب الرحمن نے علماء کے اس 31 رکنی وفد میں شامل ہونے سے کیوں انکار کیا جس نے ہفتہ کی شام وزیراعظم سے ملاقات کی تھی۔ مذہبی امور کے وفاقی وزیر کا اصرار اور ذاتی تعلق کام نہ آئے۔
مفتی صاحب کراچی کی دو شخصیات عقیل کریم ڈھیڈی اور مفتی بشیر فاروق کے ہمراہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملنے چلے گئے۔
ادھر وزیراعظم ہائوس میں دو اہم واقعات ہوئے۔ اولاً یہ کہ علماء کا وفد وزیراعظم ہائوس پہنچا تو چند لمحوں بعد وزیراعظم کے مشیر مذہبی امور طاہر اشرفی بھی آگئے۔ علماء کے وفد نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سے دوٹوک انداز میں کہہ دیا کہ ان صاحب کی موجودگی میں وزیراعظم سے ملاقات نہیں کریں گے۔ پرنسپل سیکرٹری نے وزیراعظم تک پیغام پہنچادیا۔ طاہر اشرفی وہاں سے چلے گئے۔
علماء کے وفد نے وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر اطلاعات فواد چودھری کی موجودگی پر بھی اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں وزراء کے بیانات نے حالات کو بگاڑا ہے۔ فواد چودھری، شیخ رشید اور طاہر اشرفی تینوں ملاقات سے ’’صاف‘‘ ہوگئے۔ پھر علماء نے کھل کر اپنا موقف پیش کرنے کے ساتھ بعض کمزوریوں کی نشاندہی کی۔
اس سوال پر بھی بحث ہوئی کہ فرانسیسی سفیر کے معاملے جو بات اب کہی جارہی ہے یہ پہلے معاہدے کہ وقت کیوں نہ کی گئی۔ وزیراعظم سے سواد اعظم اہلسنت کے علماء کی ملاقات کے بعد 12رکنی مذاکراتی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ وزیر مذہبی امور نے میڈیا کو بتایا کہ علماء و مشائخ کی 12رکنی کمیٹی حکومت اور کالعدم تنظیم دونوں سے بات چیت کرے گی۔
اس سے قبل (علماء کے وفد کی وزیراعظم اور مفتی منیب الرحمن کی آرمی چیف سے ملاقات) یہ ہوا کہ ہفتہ کو ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر اور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کالعدم ٹی ایل پی کی قیادت سے اسلام آباد میں مذاکرات کئے۔ کالعدم تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کو چند دن قبل لاہور جیل سے اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا۔
ان سے کچھ وزراء اور دیگر افراد قبل ازیں ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ ہفتہ کو وزیر خارجہ کی قیادت میں ہوئے مذاکرات میں بالآخر بات یہاں آن کر رک گئی کہ حکومت سعد رضوی اور دیگر رہنمائی کی رہائی، مقدمات کے اخراج، فورتھ شیڈول سے نکالنے کا نوٹیفکیشن لائے۔ غالباً ان تین مطالبان کو مدنظر رکھ کر ہی وزیراعظم نے علماء سے ملاقات کے دوران کہ سعد رضوی کی رہائی عدالتوں کے اختیار میں ہے۔ دوسرے دو مطالبات بارے بھی کہا گیا کہ قوانین کے مطابق انہیں دیکھا جائے گا۔
ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب بات یہیں رکی ہوئی تھی کہ وزیر خارجہ والی کمیٹی کو جو تین مطالبات دیئے گئے ہیں ان پر حکومت کیا کہتی ہے۔ وزیر خارجہ اور کالعدم تنظیم کے وفد کے درمیان ملاقات سے قبل وزیر آباد میں لانگ مارچ کے شرکاء کی قیادت کو پیغام بھجوایا گیا کہ اب چونکہ حکومت سے مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع ہوا ہے اس لئے لانگ مارچ کے شرکاء اگلے پیغام تک وزیر آباد میں ہی قیام کریں۔
جمعہ کی شام اور پھر ہفتہ کو دن بھر اِدھر اُدھر ہوتی ملاقاتوں کی وجہ سے یہ ضرور ہوا کہ وزیر آباد سے آگے بڑھنے اور کسی تصادم سے فریقین بچ گئے۔
اب آیئے اس نکتہ پر کہ حکومتیں گرانے اور مخالفین کو راستے سے ہٹوانے کے لئے کئے جانے والے تجربات کبھی کبھی نہیں ہمیشہ گلے پڑے۔ ہمارے ’’سائنسدانوں‘‘ کا ایک بھی تجربہ ایسا نہیں جو پھر حکومت اور ریاست کے گلے نہ پڑا ہو۔
ایک طویل داستان الم ہے یہ بھی۔ اس سارے معاملے میں کچھ نشانیاں ہیں ان سب کے لئے جنہوں نے اپنی اپنی ضرورت کے وقت شدت پسندی کی حوصلہ افزائی کرتے بلکہ خود اس کا حصہ بنے۔
مکرر ایک بات عرض کرنا ضروری ہے کہ اگر ماضی میں محض اس وقت کی حکومت سے نفرت میں اس تنظیم کا ساتھ نہ دیا گیا ہوتا اور پورے معاملے پر منتخب ایوانوں میں بات ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔
عجیب بات یہ ہے کہ اب میڈیا کو یاد آرہا ہے کہ جی ٹی روڈ بند ہونے سے وسطی پنجاب کے کاروبار کو 28ارب روپے روزانہ کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہی میڈیا 2017ء میں کہتا تھا کہ ’’عشق قربانیاں مانگتا ہے،
جان کی امان رہے تو عرض کروں خطے میں تبدیل ہوتی صورتحال اور کمائی کے بہت سارے ذرائع بند ہوجانے سے پیدا شدہ مسائل سنگین ہیں۔ ان حالات میں حکومت، ریاست، فرد یا کسی بھی تنظیم کو بہت سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے کوئی ایسا قدم اٹھانے اور جملہ اچھالنے سے گریز کرناہوگا جو مسئلہ بن کر گلے پڑجائے۔
ان سطور میں تواتر کے ساتھ عرض کررہا ہوں کہ کبھی کسی بھی مرحلہ اور حالات میں کسی تنظیم کے ساتھ حکومت معاہدہ کرنے سے قبل ایک سے زائد بار سوچے کہ معاہدہ پر عمل کیسے ہوگا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت نے نہ صرف معاہدہ کرتے وقت سوچنے کی زحمت نہیں کی بلکہ پورے نظام کے لئے ’’بارودی سرنگیں‘‘ بچھادیں۔
ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے حوالے سے جتنی مرضی تالیاں بجالیجئے تلخ حقیقت یہی ہے کہ کوئی ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ طاہر اشرفی کے ساتھ جو ہوا وہ زندہ ثبوت ہے۔اس عمل میں ایک پیغام پوشیدہ نہیں بلکہ عیاں ہے کہ اکثریتی آبادی پر غیرمتعلقہ لوگوں کو مسلط کرنا ردعمل کو جنم دیتا ہے۔ مفتی منیب الرحمن نے علماء کے وفد کا حصہ بننے سے اسی لئے انکار کیا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت نے ایک ’’مخصوص مراعات یافتہ‘‘ طبقے کو خوش کرنے کے لئے انہیں توہین آمیز انداز میں رویت ہلال کمیٹی سے الگ کیا۔
بہت احترام کے ساتھ یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ علماء کی 12 رکنی کمیٹی (اب یہ عملی طور پر 11رکنی کمیٹی ہے اس کے ایک رکن مخدوم عباس ہمدانی کمیٹی سے الگ ہوچکے) شاید ہی حالات کو سنبھال پائے۔ واحد صورت یہی ہے کہ حکومت وزیر خارجہ والی کمیٹی کو پیش کئے گئے 3 مطالبات تسلیم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے کیا قانونی طور پر حکومت اس کی مجاز ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس سے آنکھیں چرانے کا مطلب یہ ہوگا کہ قانون ہار گیا۔
ایسا ہوا تو آنے والے دنوں میں پیدا ہونے والے مسائل سلجھ نہیں پائیں گے۔ افہام و تفہیم اور قانون کی پاسداری حکومت اور احتجاج کرنے والوں ہر دو پر لازم ہے۔
پسِ نوشت //
کالم تحریر کرچکا تو وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی سربراہی والی حکومتی کمیٹی اور بزرگ عالم دین مفتی منیب الرحمن و علماء و مشائخ کے کالعدم ٹی ایل پی سے مزاکرات کامیاب ہونے کی خبر ایک پریس کانفرنس کے ذریعے دی گئی مفتی منیب الرحمن اس بات گارنٹر بنے کے ٹی ایل پی مستقبل میں تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرے گی اور لانگ مارچ ختم کردیا جائے گا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ