گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
80 سال پہلے ڈیرہ تجارت کا مرکز تھا کیونکہ درہ گومل تجارت کا افغانستان اور سنٹرل ایشیائ ریاستوں کا مرکزی روٹ تھا۔ ڈیرہ کی پاوندہ سرائے کنگ منڈی کہلاتی تھی کیونکہ یہاں اربوں روپے کا مال امریکہ ۔برطانیہ۔رنگون۔سنگاپور۔ برما۔بمبئ کلکتہ۔مدراس۔کراچی۔امرتسر ۔ملتان سے منگوایا جاتا اور درہ گومل کے ذریعے کابل۔ایران۔سنٹرل ایشین سٹیٹس بھیجا جاتا۔ ڈیرہ شھر میں اُس وقت پانچ بنک کام کر رہے تھےجن کے نام یہ ہیں۔پنجاب نیشنل بنک۔ بھارت بنک۔ چاولہ بنک۔ فرنٹیر بنک۔کواپریٹیو بنک۔ ان کے علاوہ ہنڈی کے کاروبار کے لیے ڈیرہ وال بھاٹیہ ساہوکاروں کی فرمیں بیرون ممالک بھی تھیں۔
پارٹیشن کے ساتھ یہ بنک بند اور بڑے کاروباری لوگ انڈیا چلے گیے۔ غضب یہ ہوا کہ پاکستانی حکمرانوں نے درہ گومل تجارت کا مرکزی روٹ بند کر دیا گیا اور وہ چہل پہل ختم ہو گئی۔پھر پاکستان بننے کے بعد ڈیرہ میں کسی ڈیرہ وال کے پاس دولت آئ بھی تو وہ ملک کے کسی بڑے شھر جا بسے اور وہیں سرمایہ کاری کی۔حکومت نے جو ترقیاتی منصوبے شروع کیے نہایت بے دلی کے ساتھ شروع کیے۔ گومل زام پاکستان کے قیام کے ستر سال بعد بنا۔گومل یونیورسٹی قیام پاکستان کے تیس سال بنی مگر اب آخری سانس لے رہی ہے ۔اس کی کوکھ سے زرعی یونیورسٹی نکالی تو گومل مزید انٹینسیو کیر یونٹ چلی گئی۔ سو سال پرانا ڈگری کالج نمبر1 ۔۔ آجکل FAFSC کے طلبا کے لیے بند اور نئی تجربہ گاہ ہے۔۔ چشمہ رائٹ بنک کنال اس وقت بنی جب یہاں کے کسانوں نے اپنی زمینیں باہر والوں کو بیچ دیں۔ گویا ؎ بجھ گئ پیاس تو رستے میں سمندر آیا۔ پختہ پل قیام پاکستان کے 35 سال بعد بنا۔ تجربے اب بھی شروع ہیں ۔وقف کی املاک کو عوام کی فلاح کی بجاے مفاد پرستوں کو دینے کا پروگرام جاری ہے۔ واپڈا کا مست ہاتھی ڈیرہ کو چراہ گاہ سمجھتا ہے ۔ لوڈشیڈنگ اور جرمانے سب سے زیادہ ڈیرہ سے وصول ہوتے ہیں ۔ڈیرہ شھر کی قسمت میں فرقہ واریت اور دہشت گردی آتی رہی جس سے بیس سال پیچھے چلا گیا۔؎
گزر گیا وہ زمانہ کہیں تو کس سے کہیں ۔۔
خیال دل کو میرے صبح شام کس کا تھا۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارے بچپن کے زمانے قدرتی گیس نہیں تھی ۔ ہم لوگ لکڑی اور اپلے جسے مقامی گوہے کہتے ہیں استعمال کر کے کھانا پکاتے۔ دھواں بھی بہت ہوتا مگر بے ضرر تھا۔ اب گیس آئ تو سب کچھ بھول گیے مگر مسلسل گیس کی لوڈ شیڈنگ ہمیں پیچھے دھکیل رہی ہے۔ ہم ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے چل رہے ہیں ۔مغرب کی ترقی اور لائف سٹائل سے ہماری آنکھیں چندھیا گئیں اور اپنا کلچر بھول گیے ۔اب واپس جاتے سخت مشکلات ہیں ۔ہمارے گھروں میں لکڑی سےآگ جلانے والے چولھے بھی نہیں ۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو تو کھانا پکانے کی جگہ تک نہیں ملتی۔ سرائیکی میں خوب کہتے ہیں ۔۔
اگوں دوڑ تے پچھوں چوڑ۔
خیر آج ایک شعر یاد آ رہا ہے ؎
ﮐﻮﺋﯽ ﻭﻗﺖ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﯾﺎﺩ ﺁﯾﺎ
ﭘﮭﺮ ﮔﺰﺭﺍ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﯾﺎﺩ ﺁﯾﺎ
ﭘﮭﺮ ﭼﺎﮎ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﭘﮧ
ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﯾﺎﺩ ﺁﯾﺎ۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ