گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنی زندگی میں تجربہ کر کے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آجکل ۔۔فادر ڈے ۔مادر ڈے ۔ٹیچرز ڈے ۔خواتین ڈے وغیرہ اس لیے منائے جاتے ہیں کیونکہ ہم نے ان افراد کے سماجی حقوق چھین لیے ہیں اور اب خفت مٹانے اور ان افراد کو جھوٹا یقین دلانے کے لیے ہم یہ دن مناتے ہیں ۔ ماضی میں کوئ ڈے نہیں منایا جاتا تھا مگر ماں ۔باپ ۔استاد ۔خواتین ۔بزرگوں کی بے پناہ عزت تھی ۔آج بوڑھے بزرگوں کو اکاونٹس آفس۔بنکوں ۔ڈاکخانوں میں پنشن کے حصول کے وقت رلایا جاتا ہے۔ جھڑکیاں دی جاتی ہیں ۔ستایا اور تنگ کیا جاتا ہے اور رشوت لی جاتی ہے۔ہسپتالوں میں جو بزرگوں سے سلوک ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ حکومت خود پنشنرز کوبار بار بائیو میٹرک انگھوٹھے لگوا کر ۔۔نیشنل سیونگ کے منافع ریٹ گھٹا کر برابر ذلیل کر رہی ہے۔ ہمارا معاشرہ ایک جنگل بن چکا ہے جس میں درندے شکار کی تلاش میں گھوم رہے ہیں۔قانون مذاق بنا دیا گیا انصاف ترازو کے پلڑے میں کرنسی تول کر ملتا ہے۔ اساتذہ کی عزت و احترام تو ایک طرف ان کے اپنے دفاتر میں تنخواہ۔انکریمنٹ وغیرہ پر رشوت لی جاتی ہے ۔ٹرانسفر پوسٹنگ کے نرخ تو بڑے بڑوں کو ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ایسے حالات ٹیچرز کو ڈے منانے کی مبارکبادیاں بھونڈا مذاق ہے۔ ملک میں ٹیچر کی عزت پولیس سپاہی۔واپڈا میٹر ریڈر۔پٹواری ۔کلرک ۔سے بھی کم ہے۔ پرسوں میں نے ڈیرہ اسماعیل خان شھر کے ایک ممتاز پروفیسر ڈاکٹر محمد خالد کی فیس بک وال پر انکی پوسٹ دیکھی تو شرم سے پانی پانی ہو گیا ۔پوسٹ یہ ہے ڈاکٹر محمد خالد لکھتے ہیں۔
”کل میں ایک ھوٹل پے ثوبت لینے آیا تو ایک پولیس والا پہنچ گیااور آتے ھی اس نے بھی ثوبت کا اڈردیا اور ساتھ کہا کہ میرا تعلق پولیس ھے تو اس کیساتھ رعایت ھو گئی۔ میں نے بھی موقع کو غنیمت جانا اور کہا کہ میں استاد ھوں میرے ساتھ بھی رعایت کرو تو کاونٹر پے کھڑے لڑکے نے ایک تو رعایت نہیں کی اور ساتھ مجھے گھورا …“
یہ ہے ہمارا موجودہ معاشرہ۔
یار لوگوں سے مذاق کرنا چھوڑو بندے دے پتر بنڑ کے رہو۔ استاد ۔ماں باپ کی عزت کرنی ہے تو ان کو وہ مقام دو جو ان کا حق ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر