حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالآخر ادارہ شماریات کے بابووں کو یہ تسلیم کرنا ہی پڑا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران ہوئی مہنگائی نے 70سالہ ریکارڈ توڑدیئے ہیں اور مختلف اشیاء کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 80سے 130فیصد اضافہ ہوا ہے ، غور طلب امر یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مہنگائی کے اس سونامی سے نمٹنے کے لئے کیا اقدامات کئے؟
جان کی اماں رہے تو ہمیں ان تین برسوں میں صرف دو باتیں بتائی گئیں اولاً یہ کہ سابق حکمرانوں کی لوٹ مار سے دیوالیہ ہونے کے قریب تھے ثانیاً یہ کہ مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے۔
سابق حکمرانوں کی لوٹ مار کی داستانوں میں کتنی سچائی ہے اور زیب داستان کا حصہ کتنا ہے۔ لوٹ مار کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا کس کا فرض تھا۔
مہنگائی یقیناً عالمی مسئلہ ہے مگر عالمی برادری نے اسے بے لگام نہیں چھوڑا بلکہ موثر اقدامات اٹھائے، قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کے لئے ہم نے یہاں کیا کیا سوائے باتوں کے، باتوں سے بھلا مسائل حل ہوتے ہیں یا خالی توے پر روٹی پکتی ہے؟
تازہ ترین صورت یہ ہے کہ ڈالر شریف 175روپے کا ہوگیا ہے۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ یکم نومبر سے پٹرول 7روپے اور ڈیزل 9روپے لٹر مہنگا کیا
جا ئے گا۔ خدا کرے یہ اطلاع غلط ہو لیکن اس کا کیا کریں گے کہ قیمتوں میں اضافے کے لئے آئی ایم ایف کا بے پناہ دباو ہے۔ یہاں تک صورتحال آن پہنچی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ ہر قسم کے ریاستی بینک اکاونٹ ( محفوظ رقم کے ) کمرشل بینکوں سے سٹیٹ بینک منتقل کرنے کا کہہ رہا ہے۔ کیا یہ مطالبہ درست ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ ایک طرح سے یہ ضمانت ہے مزید قرضوں کے لئے۔
آئی ایم ایف کے اس مطالبہ پر اپوزیشن کا یہ موقف درست ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط اور حفیظ شیخ کے دور میں 6ارب ڈالر قرضہ پروگرام کا معاہدہ پارلیمنٹ میں لایا جائے۔ چلیں لے آئی حکومت یہ معاملہ پارلیمنٹ میں، اپوزیشن کیسے راستہ روک پائے گی؟
البتہ یہ سوال اہم ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط اور معاہدہ چھپا کیوں رہی ہے؟
ان سطور میں تواتر کے ساتھ یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ حکومتی رہنماوں نے مخالفین کے ہر مسئلہ کو منی لانڈرنگ سے جوڑ کر مسائل پیدا کئے۔ دنیا منی لانڈرنگ کو ایک معنی میں دیکھتی ہے اور وہ ہے دہشت گرد تنظیموں کی اعانت۔
بہرطور مسائل سنگین ہوتے جارہے ہیں لچھے دار باتوں سے بہلاتے رہنے کا وقت ہوا ہوا۔ اہل اقتدار کو سوچنا ہوگا کہ اصلاح احوال کیسے ممکن ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کے فیصل آباد جلسہ میں حساس اداروں کے خلاف نعرے بازی، تقاریر اور ان اداروں سے منسلک شخصیات میں سے بعض کا نام لے کر کی گئی تنقید سے (ن) لیگ کا کوئی تعلق نہیں۔
شہباز شریف کہتے ہیں ایسے لوگ نہ تو مسلم لیگ کے کارکن ہیں اور نہ ہی عہدیدار۔ ان کے خیال میں خطے میں بدلتی صورتحال اور خارجی مسائل سے نمٹنے میں مسلح افواج کا کردار اہم ہے اس نازک وقت میں فوج کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔
جناب شہباز شریف کے اس بیان کے بعد ہمارے دوست استاد مشتاق احمد پوچھ رہے تھے کہ شاہ جی میرا اور نوازشریف کا کیا ہوگا؟ میں نے عرض کیا استاد جی اب اصولی طور پر نوازشریف، مریم نواز اور آپ کا مسلم لیگ (ن) سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ پارٹی صدر کا بیان پالیسی بیان ہے۔
استاد جی بات ماننے کی بجائے آصف زرداری کو کوس رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شہباز شریف کو (ن) لیگ کا صدر زرداری نے بنوایا ہے اور اب انہوں نے جو بیان دیا ہے اس کے لئے بھی زرداری نے ہی کہا ہے۔
ادھر عوامی حلقوں اور میڈیا پر اب بحث اس بات پر ہورہی ہے کہ جناب شہباز شریف کا یہ بیان ان کی حالیہ چند ملاقاتوں کا نتیجہ ہے جو انہوں نے ہنگامی طور پر لاہور سے راولپنڈی پہنچ کر کیں۔
ان ملاقاتوں کے لئے لاہور سے وہ اپنے عملے کے ساتھ روانہ ہوئے تھے۔ اسلام آباد موٹروے ٹول پلازہ سے وہ ایک الگ گاڑی میں تنہا سوار ہوئے اور لاہوری قافلے سے الگ ہوکر منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔
یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ میاں شہباز شریف کی اس
’’تنہا پرواز‘‘ کے بعد، ایک دو رکنی وفد نے لندن میں میاں نوازشریف سے بھی ملاقات کی۔
اس کہانی کے دوسرے حصے کی حقیقت جلد ہی کھل جائے گی۔ اگر لندن میں دو رکنی وفد کی نوازشریف سے ملاقات ہوئی ہے تو مریم نواز اور نوازشریف آنے والے دنوں میں اپنے معروف بیانیہ کا ذکر دبے لفظوں میں بھی نہیں کریں گے۔
ملاقات ’’ہوائی‘‘ ہے تو پھر (ن) لیگ میں گروپ بندی کھل کر سامنے آئے گی۔ یہاں ساعت بھر کےلئے رک کر یہ جان لیجئے کہ (ن) لیگ کی ’’انتظامیہ‘‘ نے پچھلے دنوں اپنی جماعت کے جس رکن قومی اسمبلی کو بعض بیانات کی وجہ سے شوکاز نوٹس دیا تھا اور پھر نوازشریف کے حکم پر نوٹس واپس لے لیا اس رکن قومی اسمبلی نے دبے لفظوں میں سہی مگر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ میاں نوازشریف سے ایک وفد کی ملاقات ہوئی ہے۔
ہمارے ہمزاد فقیر راحموں کہتے ہیں شاہ جی، تین چیزوں کو اکٹھا کرکے دیکھو بہت ساری باتیں سمجھ میں آجائیں گی۔ ان کے بقول بلوچستان میں جام کمال کے خلاف ’’باپ پارٹی‘‘ کے ایک گروپ کی بغاوت میں پی ڈی ایم کا باغیوں کا ساتھ دینا، شہباز شریف کی راولپنڈی میں حالیہ ملاقاتیں اور ’’وفد‘‘ کی نوازشریف سے ملاقات۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
فقیر راحموں کچھ بھی کہیں مگر یہ سوال بنتا ہے کہ پی ڈی ایم اور باپ پارٹی کے باغیوں کا ساتھ اور پھر جام کمال کے مستعفی ہونے کو مریم نواز کی طرف سے جمہوریت کی فتح قرار دینا۔ یہ سب بلاوجہ نہیں۔
ان سطور کے لکھے جانے سے چند گھنٹے قبل مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے بلوچستان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’بلوچستان کی طرح عدم اعتماد کی تحریکیں پنجاب اور مرکز میں بھی آسکتیں ہیں‘‘۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی حالات ان ہاوس تبدیلی کی طرف بڑھ رہے ہیں یا پھر حکومت کو دباو میں لانے اور خاموشی سے احکامات بجالانے پر مجبور کرنے کے لئے یہ ’’سب کچھ‘‘ ہورہا ہے۔
شہباز شریف کے بیان کے بعد ’’سول سپرمیسی‘‘ کے معروف بیانیہ کا کیا ہوگا یہ بھی کہ پچھلی شب سے ان کے خلاف خود (ن) لیگ کے حامی سوشل میڈیا پر جو مہم چلارہے ہیں اور قیادت کے باقی ’’مہرے‘‘ چپ سادھے ہوئے ہیں یہ کیا ہے؟
کیا نوازشریف نے حکمت عملی کے تحت شہباز شریف کو آگے بڑھنے کے لئے کہا ہے۔ حکمت عملی اس لئے لکھا ہے کہ جو لوگ شریف خاندان کو جانتے ہیں وہ اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ اگر حکمت عملی ہے تو درست ورنہ شہباز شریف میں اتنے ’’تپڑ‘‘ نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے بغاوت کریں۔
(ن) لیگ کا ووٹ بینک نوازشریف کا ہے۔ وقتی طور پر گو ان کے ساتھ ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد کھڑی ہوجائے گی لیکن پھر آئندہ الیکشن میں ان کے گروپ کا وہی حشر ہوگا جو ایم کیو ایم حقیقی کا ہوا تھا۔
حرف آخر یہ ہے کہ ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان جیت گیا اور بھارت 10وکٹوں سے ہار گیا۔ گزشتہ دو دنوں سے دونوں ملکوں کے ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا صارفین ’’ات‘‘اٹھائے ہوئے ہیں۔ واہگہ کے دونوں اَور آباد لوگوں سے عرض فقط یہ کرنا ہے کہ ’’کھیل جنگ اور جنگ کھیل نہیں‘‘
کھیل کے نتیجہ پر انسانوں جیسے جذبات کا مظاہرہ کیجئے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ