مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راسپوٹین کب نمودار ہوتا ہے؟|| وجاہت مسعود

کوئی سو برس پہلے ایک پراسرار ہستی روس کے دارالحکومت سینٹ پیٹرزبرگ میں نمودار ہوئی۔ گریگری راسپوٹین نام تھا، رسمی تعلیم نہیں تھی، روحانی کمالات کا دعویٰ تھا۔ اشرافیہ میں اچھا اثر و رسوخ بنا لیا تھا۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی کا تشکر تو بہرصورت واجب ہے لیکن ہر زمانے اور زمین کے اپنے رنگ اور اپنے امتحان ہوتے ہیں۔ ناصر کاظمی نے ہمارے عہد کو ’کالے کوس کی پرہول رات‘ کہا تھا۔ 16 دسمبر 1971 کے بعد 75 روز ناصر کاظمی پر بہت سخت گزرے۔ شاعر نے پاکستان کا خواب آنکھوں میں لئے رونمائی دی تھی۔ وہ پاکستان بکھر گیا تو شاعر نے 2 مارچ 1972 کو آنکھیں موند لیں۔ امانت کے زیاں کا احساس جانگسل ہوتا ہے۔ کوئی چار دہائی بعد 18 اکتوبر 2007 کی شام کراچی میں ایک ایسی ہستی اتری جو سود و زیاں سے بے نیاز ہو چکی تھی۔ اس خاتون نے تیس برس پہلے پاکستان کے لوگوں سے ایک عہد باندھا تھا۔ اب اس عہد کی حتمی قیمت ادا کرنے کا وقت آ گیا تھا۔ بے نظیر شہید نے اس علم کے ساتھ 70 روز تک پاکستان کے لوگوں کو جمہوریت اور ترقی کا خواب یاد دلایا کہ ان کی اپنی زندگی کا چراغ حریف ہوائوں کی زد میں تھا۔ غنیم تاک میں تھا۔ 27 دسمبر 2007 کی شام لہو کی وہ لہر کنارے آ لگی جس نے کارساز سانحے میں 180 جانوں کا تاوان لیا تھا۔ امسال پھر سے دونوں وقت ملنے کا مرحلہ درپیش ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ یہاں سے اگلے پڑائو پر بھیروں راگ کی سپورن بندش انتظار میں ہے یا راگ سوہنی کی برہا پکار سے واسطہ ہو گا۔

امائوس کی کسی رات میں جنگل سے گزرتی ریل گاڑی دیکھ کر انتظار حسین نے لکھا تھا ’کوئی اندھیرے میں چراغوں کی قطار دھاگے سے باندھے لئے جا رہا ہے‘۔ ہمارے چراغوں کی لڑی بابڑا فائرنگ (چارسدہ) سے شروع ہوتی ہے۔ ڈھاکہ اور کراچی کے مظلوم طلبا، 4 جنوری 65 ء کے شہید، 71 ء کے شہید، 23 مارچ 73ء کے شہید، ایم آر ڈی کے شہید، تھوڑی پھاٹک کے شہید، بوہری بازار کے شہید، پکا قلعہ (حیدر آباد)، قصبہ کالونی اور سہراب گوٹھ کے شہید، فرقے اور زبان کی سیاست کے شہید، طالبان دہشت کے 70 ہزار شہید، 12 مئی 2007 کے شہید، 18 اکتوبر 2007 کے شہید، ہزارہ شہید، بلوچ شہید۔ بہت برس پہلے کسی اجتماع میں قوم کے گمنام شہیدوں کا ذکر کرتے ہوئے درویش جذباتی ہو گیا۔ معلوم تھا کہ صرف ایک بیٹے کی موت ماں کی ہر سانس کو دکھ کی کٹار پر رکھ لیتی ہے۔ مرحوم آئی اے رحمٰن کے دل میں آگ فروزاں تھی مگر کمال ضبط پایا تھا۔ ایک تین لفظی جملے میں بات نمٹا دیتے تھے Grief is Personal۔ اس روز میری بات سن کر فرمایا، تم عزاداری بہت کرتے ہو۔ عرض کی، استاد محترم، حادثہ یا انفرادی جرم ہوتا تو صبر ممکن تھا۔ کیا کیا جائے کہ ان میں ہر واقعہ ریاست کی شہریوں کے خلاف سوچی سمجھی سازش تھا تاکہ عوام دشمن مفادات کو آگے بڑھایا جا سکے۔ غیر جمہوری ریاست قوم کے خلاف سازش، تمدن کی تخریب اور شہری کے خلاف جرم مسلسل کی حکایت ہے۔ اتنے تجربات کے بعد کم از کم یہ تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے تھا کہ جرائم پیشہ، بدعنوان اور قانون شکن عناصر غیر جمہوری قوتوں کے قابل اعتماد ساتھی اور مستقل اتحادی ہوتے ہیں۔ایک متمدن ریاست میں انفرادی سطح پر کوئی چھوٹا موٹا جرم وقوع پذیر ہو سکتا ہے لیکن منظم اور سلسلہ وارجرم ریاستی قوتوں کی اعانت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔کولمبیا سے اٹلی اور افریقہ سے مشرق بعید تک دیکھ جائیے۔ عوام کو جرم، نا انصافی اور محرومی سے نجات دلانے کے لئے ضروری ہے کہ فیصلہ سازی اور جواب دہی پر عوام کا اختیار قائم کیا جائے۔ آئیے لمحہ موجود کے کچھ واقعاتی اشاریے دیکھیں۔

شوکت ترین صاحب آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط پر مذاکرات کرنے گئے تھے لیکن آئی ایم ایف سے گفت و شنید کے نتائج پر لب کشائی کیے بغیر خلیجی ممالک کی طرف نکل گئے۔ آنکھ ہے، دل تو نہیں، ساری خبر رکھتی ہے۔ ایف ٹیف کے اجلاس سے حتمی خبر آنا باقی ہے مگر قریب قریب حتمی اطلاع ہے کہ ابھی چار ماہ مزید گرے لسٹ میں رہنا ہو گا۔ 2018 سے اب تک اس مد میں 50 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا۔ یورپین یونین اور امریکی سینیٹ میں ہماری تادیب کے دو امکان پال میں لگائے جا چکے ہیں۔ دو ہفتے گزر چکے، چار سطروں کا ایک نوٹی فکیشن جاری نہیں ہو پایا۔ نادیدہ قدموں کی چاپ ہے اور جان لیوا خوف ہے۔ تاہم ’درختوں کی شاخوں کو اتنی خبر ہے کہ ان کی جڑیں کھوکھلی ہو گئی ہیں‘۔ نامعلوم کیوں سمجھ رکھا ہے کہ کابل میں موقع بے موقع سفارتی اشاروں سے مملو تصاویر بنواتے رہنے سے ہماری اہمیت دوچند ہو جائے گی۔ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کا اجلاس اس سہاگن کی مانگ جیسا اجاڑ ہے جس کی غیراعلانیہ علیحدگی ہو چکی ہو۔ پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور ایک کالعدم تنظیم نے مظاہروں اور احتجاج پر کمر باندھی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسے احتجاج قوم کے ساتھ کھیلی جانے والی تمثیل کے اگلے منظر کی تمہید ہوتے ہیں۔ آئیے، ایک تاریخی قصے کی باز خوانی ہو جائے۔

کوئی سو برس پہلے ایک پراسرار ہستی روس کے دارالحکومت سینٹ پیٹرزبرگ میں نمودار ہوئی۔ گریگری راسپوٹین نام تھا، رسمی تعلیم نہیں تھی، روحانی کمالات کا دعویٰ تھا۔ اشرافیہ میں اچھا اثر و رسوخ بنا لیا تھا۔ صحیح یا غلط، عام تاثر یہی تھا کہ سرکار دربار کے اہم فیصلے قبلہ راسپوٹین کے دماغ عالی کی تراوش تھے۔ روس پہلی عالمی جنگ ہار رہا تھا، سیاسی اور معاشی انتشار عروج پر تھا لیکن روس کی اشرافیہ میں کہیں موصوف راسپوٹین کے روحانی تصرفات کے چرچے تھے تو کہیں ناگفتہ بہ کجروی کی سرگوشیاں تھیں۔ بالآخر ایک روز دربار کے مخالف گروہ نے راسپوٹین کو ٹھکانے لگا دیا۔ چند ہفتے بعد زار کی سلطنت کا بھی بولو رام ہو گیا۔ یہ تو واضح ہے کہ راسپوٹین کی حکایت سے ہمارے ملک کا کوئی تعلق ممکن نہیں۔ سو ایسا کرتے ہیں کہ ن م راشد کی نظم ’نارسائی‘ کی آخری سطریں پڑھتے ہیں کیونکہ اوپر کہیں اس نظم کا ایک مصرع چلا آیا ہے۔

تو دن بھر یہی سوچ تھی

کیا ہمارے نصیبے میں افتاد ہے،

کوئی رفعت نہیں؟

کوئی منزل نہیں ہے؟

بشکریہ : جنگ

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: