نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دانش کی ” جگاڑیں "||حیدر جاوید سید

سوال یہ ہے کہ یہ بات کہنے کی نوبت کیوں آئی کیا کچھ ایڈونچر پسند معاملے کو وہاں تک لے جانے میں کامیاب ہوگئے تھے جہاں ایسے کسی اقدام کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا؟ ایسا نہیں تو پھر یہ بات نہ ہی کی جاتی تو زیادہ بہتر تھا اس سے بھی بہترین بات اور عمل یہ ہوتا کہ آئی ایس آئی چیف کی تقرری و تبادلے کا معاملہ اطلاعات کی دنیا میں زیربحث ہی نہ آتا

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم ایک ایسے ملک میں بستے ہیں جہاں نان ایشوز کو ایشو بناکر لوگوں کے ٹرکوں کی بتیوں پیچھے دوڑایا جاتا ہے چوہتر برسوں کی دستیاب تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجے مزے مزے کی کہانیاں ملیں گی پڑھیں حظ اٹھائیں نہ پڑھیں تو آپ کی مرضی زور زبردستی تو ہے نہیں
ہمارے ہاں فیلڈ مارشل ایوب خان ہوا کرتے تھے کیا کمال کے بندے تھے ملک پہ قبضہ کیا دستور روندا فیلڈ مارشل بن گئے ، یحیٰی خان تھے مست ملنگ بندے انہیں سلطان صلاح الدین ایوبی ثانی کہا قبلہ میاں طفیل محمد نے اور لکھا
"نفاذ اسلام کا جو کام حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خلافت کے اختتام پر رُک گیا امید ہے جنرل یحیٰی وہیں سے آغاز کریں گے”
جنرل ضیا آئے محمود غزنوی ثانی قرار پائے مولوی صاحبان اور صالحین کے ساتھ امریکہ کی آنکھوں تارا تھے پرویز مشرف لبڑلز کے محبوب رہے ارے معاف کیجے گا عرض کچھ کرنا تھا سینگ کہیں پھنسا لئے
یہاں سب ممکن ہے جمہوریت میں مارشل لا کو آوازیں دیجئے اور مارشل لا میں جمہوریت کو پلٹنا پلٹ کر چھپٹنا اسی کو کہتے ہیں ،
ان دنوں یعنی آجکل بھی لہو گرم رکھنے کا سامان سنبھالے مجاہدین کے لشکر میدان میں ہیں ایک اخبار نویس کے طور میری ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ ” حدِ ادب ” ہو یا حدودِ ذمہ داری (ذمہ واری نہ سمجھ لیجے گا ) دونوں میں حدود کا خیال لازم ہے مگر اس کا کیا کیجے کہ لنکا میں سب باون گزے ہوتے ہیں اور ہمارے یہاں تو ترپن گزے پائے جاتے ہیں
اب خود ہی دیکھ لیجے کہ انتظامی امور کے ایک معاملے پہ پچھلے کئی دنوں سے ” طوفان ” برپا ہے گزشتہ سے پیوستہ شب وفاقی وزراء اورفوجی حکام کے درمیان ملاقات ہوئی بعدازاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم عمران خان سے ملنے گئے دونوں ملاقاتوں کے بعد حکومتی ذرائع کا موقف یہی تھا کہ یہ معمول کی ملاقاتیں ہیں۔
خصوصی مشن یا ایجنڈا تھا نہ حکومت اورفوج کے ذمہ داران میں کسی نوعیت کے اختلافات ہیں۔
ذرائع کی ان یقین دہانیوں کے برعکس وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور عامر ڈوگر نے ایک انٹرویو میں کہا
’’وزیراعظم افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔
ان کا دعویٰ تھا کہ بھارت ہر چھوٹے بڑے واقعہ کو غلط رنگ دیتا ہے وہ نہیں چاہتا کہ پاک فوج کا مثبت امیج بنا رہے۔ ( عامر ڈوگر سے اس انٹر ویو پر وضاحت طلب کرلی گئی ہے ) منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیراعظم کے حوالے سے ہمیں یعنی رعایا کو یہ بتایا گیا کہ انہوں نے کہا ہے
’’ہم ایک پیج پر ہیں، فوج میں تقرریوں تبادلوں پر کوئی اختلاف نہیں، یہ مسئلہ جلد حل ہوجائے گا اسے غلط رنگ نہ دیا جائے۔‘‘
وزیراطلاعات فواد چودہری نے کابینہ کے اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے کہا
’’ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا اختیار وزیراعظم کو حاصل ہے۔ تقرری کا قانونی طریقہ کار اپنائیں گے ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت یا فوج ایسا کچھ نہیں کریں گے جس سے وزیراعظم یا آرمی چیف کا وقار کم ہو۔ قیاس آرائیوں پر توجہ نہ دی جائے "۔ وزیر اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے "اس حوالے سے کابینہ کو اعتماد میں لیا ہے۔‘‘
حکومتی ذرائع یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وزارت دفاع وزیراعظم کو آئی ایس آئی چیف کے لئے 3سے 5نام بھیجے گی، وزیراعظم طریقہ کار کے مطابق تقرری کی منظوری دیں گے۔ مناسب یہی ہوتا کہ یہ معاملہ باہمی مشاورت سے ابتدا ہی میں طے کرلیا جاتا تاکہ افواہوں کو پَر نہ لگتے اور وہ صورتحال پیدا نہ ہونے پاتی جس پر اب یہ کہہ کر دل کو تسلی دی جارہی ہے کہ ’’قیاس آرائیوں پر توجہ نہ دی جائے‘‘۔
فوج سمیت کسی بھی محکمہ میں تقرریاں تبادلے معمول کا حصہ ہیں۔ آئی ایس آئی چیف کی تقرری بھی اسی معمول کا حصہ ، مگر اس کے حوالے سے پچھلے چند دنوں کے دوران جو فضا بنی یا بنائی گئی اب اس کی ذمہ داری صرف اور صرف سوشل میڈیا پر ڈال کر دامن جھاڑ لینا بھی درست نہیں ہوگا۔
یقیناً سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بے پٙر کیاں اڑائی گئیں اور پھر بعض تجزیہ نگاروں نے ان بے پٙرکیوں کی بنیاد پر "دانش” کی سواریاں بھگاتے ہوئے اس امر پر توجہ نہیں دی کہ جو بات وہ کہہ رہے ہیں اس کا عمومی تاثر کیا ہوگا۔
منگل کی سہ پہر کے بعد وزیر اطلاعات فواد چودھری کی بریفنگ کے اس نکتہ نے اطلاعات کی دنیا میں عجیب سا بھونچال پیدا کردیا کہ ’’حکومت اور فوج ایسا کچھ نہیں کریں گے جس سے وزیراعظم اور آرمی چیف کا وقار کم ہو‘‘۔
سوال یہ ہے کہ یہ بات کہنے کی نوبت کیوں آئی کیا کچھ ایڈونچر پسند معاملے کو وہاں تک لے جانے میں کامیاب ہوگئے تھے جہاں ایسے کسی اقدام کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا؟ ایسا نہیں تو پھر یہ بات نہ ہی کی جاتی تو زیادہ بہتر تھا اس سے بھی بہترین بات اور عمل یہ ہوتا کہ آئی ایس آئی چیف کی تقرری و تبادلے کا معاملہ اطلاعات کی دنیا میں زیربحث ہی نہ آتا
مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں عمومی مزاج یہ بن چکا ہے کہ ہر بات کے پیچھے سازشی تھیوری کو کھود کر لانا اورپھر اس پر بحث کرکے ایسی کہانیوں کو آگے بڑھانا جس کا وجود ہی نہ ہو، یہ طرزعمل افسوسناک ہے۔
مسلح افواج میں تقرریاں و تبادلے ساری دنیا میں ہوتے ہیں مگر ان تقرریوں تبادلوں سے قیاس آرائیاں جنم لیتی ہیں نہ ہی کوئی ان قیاس آرائیوں میں مرضی کے رنگ بھر کے منفی پروپیگنڈے کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔
آئین اور قانون میں ایک ایک بات وضاحت کے ساتھ لکھی ہے ہر شعبے کی حدود اختیارات، مشاورت کا دائرہ اور ضرورت کی ہر چیز بہت واضح ہے۔
وزیراعظم بلاشبہ منتخب جمہوری نظام کے سربراہ ہیں۔ دستور اور قوانین نے ان کے اختیارات کی جو حد وضع کی ہے اس میں کہیں اور کسی طرف سے مداخلت درست نہیں۔ تشویش اس بات پر ہے کہ بعض وزراء، حکومتی مشیر اور حکومت کے محبین میں شمار ہونے والے تجزیہ نگار آئی ایس آئی چیف کی تقرری و تبادلے کے معاملے کو پیش کرتے ہوئے الفاظ کے چنائو میں احتیاط نہیں کرپائے جس سے یہ تاثر ابھراکہ سول و فوجی حکام کے درمیان اس تبادلے و تقرری پر کوئی بہت زیادہ اختلافات ہیں اور خدانخواستہ اگرمعاملہ حل نہ ہوا تو بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔
اندریں حالات اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سارے معاملے پر اٹھی بحثوں سے صرفِ نظر کیا جائے۔ حکومتی اکابرین بھی اس حقیقت کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش کریں کہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر معاملے پر لب کشائی کی جائے اسی طرح تجزیہ نگاروں کو بھی قیاس کے گھوڑے دوڑانے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ جہاں تک اس معاملے کے حوالے سے بھارتی ذرائع ابلاغ کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی بات ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارت تو ٹھہرا ہمارا ” ازلی دشمن” ، لیکن اگر ہمارے یہاں سے بے پَرکیاں نہ اڑائی جاتیں تو بھارتی ذرائع ابلاغ کو مذموم پروپیگنڈے کا موقع نہ ملتا۔
امید ہی کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں ایسے امور کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ اس امید سے آگے کی بات یہ ہے کہ سول سپر میسی والے چھلانگیں لگا کر میدان میں ہیں ہر کوئی موجودہ صورتحال میں سے اپنے لیے ” خیر ” کا پہلو تلاش کررہا ہے

یہ بھی پڑھیں:

About The Author