نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مذہبی جماعتوں میں بلوچ نیشنل ازم کا عنصر||عزیز سنگھور

ماضی پر نظر ڈالیں تو جماعت اسلامی نے کبھی بھی صوبائی خودمختاری کی بات نہیں کی۔ بلکہ جماعت اسلامی نے ایک مضبوط مرکز کی بات کی ہے۔ جماعت اسلامی نے بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں کے بجائے کشمیر اور افغانستان کی صورتحال پر زیادہ بات کی۔

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان خصوصامکران میں مذہبی جماعتوں میں بلوچ قوم پرستی کا عنصرنے بلوچ تحریک کومزید مستحکم ومضبوط کیاہے۔ دراصل مذہبی جماعتوں کی حالیہ پالیسیوں میں بلوچ نیشنل ازم کی عکاسی ہوتی ہے۔ مرکزیت (اسلام آباد) کی مضبوطی کی بجائے وہ صوبائی خودمختاری کی بات کررہی ہیں۔ بلوچستان کے ساحل و وسائل پر بلوچ حکمرانی کا مطالبہ کررہی ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ جماعتیں عام بلوچ کو اپنی طرف متوجہ کررہی ہیں۔ حالانکہ ان جماعتوں کی مرکزی پالیسیاں قوم پرستانہ نہیں ہیں۔ تاہم ان جماعتوں کے مکران سے تعلق رکھنے والے قائدین نے اپنی جماعتوں میں غیر معمولی تبدیلیاں کی ہیں۔جس کا سہرا مکران سے تعلق رکھنے والے قائدین کو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان جماعتوں میں قوم پرستی کے رجحانات کو فروغ مل رہا ہے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی،چیک پوسٹوں پر عوام کی تذلیل،سی پیک میں بلوچستان کو نظرانداز کرنا، گوادر میں مقامی افراد کو اقلیت میں تبدیل کرنے اور سیکیورٹی اداروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کی آواز، پاک ایران بارڈر تجارت کی بندش کے خلاف سمیت بلوچستان کے سمندر میں ڈیپ سی ٹرالنگ کے خلاف متحرک اور سرگرم عمل ہیں۔ عام عوام کے معاشی، سماجی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لئے جمعیت علما اسلام اور جماعت اسلامی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ سہرا جمعیت علما اسلام بلوچستان کے نائب صدر مولانا خالد ولید سیفی اور جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو جاتا ہے۔ دونوں رہنماؤں کا تعلق مکران سے ہے۔ ان رہنماؤں کے سخت قوم پرستانہ موقف سے ان کے مرکزی قائدین شاید خوش نہیں ہیں۔
ماضی پر نظر ڈالیں تو جماعت اسلامی نے کبھی بھی صوبائی خودمختاری کی بات نہیں کی۔ بلکہ جماعت اسلامی نے ایک مضبوط مرکز کی بات کی ہے۔ جماعت اسلامی نے بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں کے بجائے کشمیر اور افغانستان کی صورتحال پر زیادہ بات کی۔ وہ افغانستان اور کشمیر کے ایجنڈے کے دائرے میں گھرے ہوئے تھے۔
تاہم جمعیت علما اسلام بلوچستان کے نائب صدر مولانا خالد ولید سیفی اور جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمان نے بلوچستان میں جاری ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی اور وفاقی پالیسیوں کے خلاف تحریک چلارہے ہیں۔ انہوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی، چیک پوسٹوں پر عوام کی تذلیل، پاک ایران بارڈر تجارت کی بندش کے خلاف، سی پیک میں بلوچستان کو نظر انداز، گوادر میں مقامی افراد کو اقلیت میں تبدیل کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک سخت بلوچ قوم پرستانہ موقف اختیار کیا ہے۔ یہ موقف ان کی شخصیت میں ایک بلوچ نیشنل ازم عنصر کی عکاسی کرتا ہے۔ مکران کے علاقے ڈنک میں ملک ناز کا قتل ہوں یا آبسر کے حیات بلوچ اور تاج بی بی کا قتل ہوں جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے صوبائی نائب صدر اور کیچ کے ضلعی امیر مولانا خالد ولید سیفی کا موقف سخت ہوتا تھا۔ خالدولیدسیفی نے ضلع کیچ کو بدمعاش، چور اچکوں اور مسلح جتھوں کی سرگرمیوں کے خلاف سخت گیر موقف رکھتے ہیں۔ اس سخت موقف کی وجہ سے ان کی رہائش گاہ پر پولیس نے چھاپہ بھی مارا ۔ مولانا خالد ولید سیفی کے گھر پر پولیس کی طرف سے فائرنگ سےخواتین اور بچوں کو ہراساں کیاگیا۔ پولیس نے سیفی صاحب کے گھر پرفائرنگ اور خواتین کے ساتھ بلاجواز بدتمیزی کرکے چادر وچاردیواری کے تقدس کو پامال کیا۔ یہ چھاپہ دراصل ان کو تحریک چلانے سے دور رکھنے کا اشارہ تھا۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود آج بھی سیفی صاحب کے موقف میں نرمی نہیں آئی۔ میری پہلی ملاقات سیفی صاحب سے 2000 میں تربت میں ہوئی تھی۔ اس کو میں نے ایک اچھے انسان اور ایک اچھا دوست پایا۔ ان کا علم و ادب سے کافی لگاؤ بھی ہے۔ وہ اکثر و بیشتر اخبارات اور جرائد میں بلوچستان کے حوالے سے لکھتے بھی ہیں۔ ان کے کالم بلوچ عوام کو درپیش معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل پرمبنی ہوتے ہیں۔ان کے کالم بلوچ قوم پرستانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ اسی طرح مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے مکران کی سیاست میں ایک نئی جدت لائے۔ ان کی سوچ نے مکران کے عوام کو یکجا کیاہے۔ جس کا ثبوت حال ہی میں گوادر میں ہزاروں کی تعداد لوگوں نے مولانا صاحب کی کال پر جلسہ میں شرکت کی۔ حالانکہ ماضی پرنظرڈالیں تو جماعت اسلامی کو بلوچستان میں عوامی پذیرائی حاصل نہیں رہی۔ تاہم مولانا صاحب کی صلاحیت اور شخصیت نے جماعت اسلامی نے گوادر میں تاریخی جلسہ کرکے یہ ثابت کیا کہ وہ جماعت اسلامی کی ترجمانی کرنے والی ایک عوامی اور جمہوریت پر یقین رکھنے والی شخصیت ہیں۔
جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر مولانا عبدالحق بلوچ ایک مصنف اور مذہبی اسکالر تھے۔ وہ مکران سے رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ان کے موقف سےبلوچ نیشنل ازم ابھرتا تھا۔
حال ہی میں مولانا عبدالحق بلوچ کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر سلیم بلوچ نے مولانا کے کالموں کا مجموعہ شائع کیا۔ میں (راقم) اور میرابوبکر جدگال (رکن کراچی پریس کلب) کی درخواست پر کراچی پریس کلب کی گورننگ باڈی نے مولانا صاحب کی کتاب کی تقریب کی منظوری دی۔ تقریب میں بلوچ قوم پرست رہنما یوسف مستی خان مہمان خصوصی تھے۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان کے رہنما جنرل عبدالقادر بلوچ سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ اس تقریب میں بلوچ قوم پرست جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں اور کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی جماعتیں اپنی قوم پرستانہ پالیسیوں کی وجہ سے بلوچ قوم پرستوں کو اپنی جانب راغب کرارہی ہے۔
اگر جماعت اسلامی کی بات ہورہی ہے توہم جماعت اسلامی گوادر کے رہنما سعید بلوچ کے کردار کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ گوادر کے ماہی گیروں کے مسائل کے حل کے پاداش میں ان کے گھر پر پولیس اور انتظامیہ نے دھاوا بول دیا۔ انہیں گرفتار کیا گیا۔
مولانا خالد ولید سیفی اور مولانا ہدایت الرحمان نے اپنے اپنے مسلک (دیوبند اور اہل الحدیث) کے عقائد پر قائم رہ کر دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والوں کی عزت و احترام کی روایات کو بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے۔ حالانکہ ماضی میں ان جماعتوں میں ایسی روایات بہت کم ملتی ہیں۔
مذہبی جماعتوں میں بلوچ نیشنل ازم کا عنصرفطری عمل ہے۔ وہ سن آف سوائل سے ہیں۔ مٹی (دھرتی) کی بات کرنا ان کے خون میں شامل ہیں۔ جب دھرتی کی بات کریں گے تو اس میں بلوچ نیشنل ازم جھلکنے لگتا ہے۔ اگر قوموں کی تحریکوں کی بات کی جائے تو دنیا میں دو اقوام ایسی ہیں جن کا نیشنل ازم اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں فدائین پیدا ہوئے۔ جن میں عرب نیشنل ازم (فلسطین) اور دوسرا بلوچ نیشنل ازم شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ

عزیز سنگھور کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author