نعیم مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانحہ کارساز کراچی، ایک وہ نامکمل مشن تھا جس میں ایک سو اٹھہتر زندگیوں کی کہانی مکمل ہوگئی۔ ایک لاش نہ ملی مگر بیسیوں لاشیں اپنے اور ساتھیوں کے لہو میں لت پت ہوگئیں۔ وہ ہستی جسے لاش بنانا کسی جمہور دشمن و ملک دشمن اور انسان دشمن کو مقصود تھا، وہ اس روز تو کامیاب نہ ہوسکا، وہ ہستی وطن کی محبت میں اور جمہوریت کی تقویت کیلئے پاک سر زمین پر واپس لوٹی تھی، مگر اس کو صفحہ ہستی سے نہ مٹا پانے والے نے، اس سنگین جرم کا در 27 دسمبر 2007 کو دوبارہ وا کر دیا۔ 27 دسمبر کی مسیحائی پر مشتمل کتاب زندگی کا دیباچہ و مقدمہ 18 اکتوبر 2007 کو لکھا گیا! اداسی کی ردا جو 18 اکتوبر کو پوری طرح نہ اوڑھی جا سکی، وہ 27 دسمبر کو اوڑھ لی گئی۔ 18 اکتوبر کو چار سو سے زائد افراد کے زخم پہلے ہی کہاں مندمل ہونے والے تھے، کہ 27 دسمبر کی ان زخموں پر نشتر زنی نے تو بارود کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
اگر کہانی کو اس کی حقیقت کی اوٹ سے دیکھیں تو لگتا ہے جیسے سانحہ کارساز میں لہو بن کر بہہ جانے والے اور ایک عقیدت کہ پرواز رکھنے والے دختر مشرق کے استقبال کیلئے چلے گئے، کہ انہوں نے 27 دسمبر 2007 کی شام کو شام غریباں کا رنگ دینا تھا۔ یہ شام تو ازخود اداس سماں اور تھکا ہوا لمحہ لگتی ہیں، پھر میں یہ جاتے اجالے اور آتے اندھیرے کے سنگم پر چپ چاپ کھڑی مسکراتی ضرور ہیں، جانے یہ مسکراہٹ گالوں پر لالی کا سبب بننے کے بجائے عجیب سے دھندلا پن کو گلے سے کتنی مسرت کے ساتھ لگا لیتی ہیں۔ شاموں سے دوراہوں اور دو وقتوں کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے، اور شام ڈھلتے سورج کی تیرگی کو اپنے ماتھے پر سجانے کے سنگ سنگ اگلی صبح کا بیج بھی تو بوتی ہے، اور پھر اس بیج کو کبھی چاند تو کبھی ستاروں کی آبیاری پر چھوڑ کر کس قدر کرسکو۔ ہوجاتی ہے، ایسے جیسے کوئی کٹھن کام مکمل کرنے کے بعد چاہت کو دوام اور راحت کو سکون مل گیا ہو !
اب تو ایسے زمین بوس ہیں ہم, کہ آسمانوں کو دیکھنے کا وقت ہی نہیں ملتا مگر بچپن میں کبھی کبھی اداس شاموں میں، کہیں دور افق پر کوئی سرخی نظر آتی، تو سیانے کہتے ” کہیں خون ہوا ہے جو اُفق کے ماتھے پر سرخی ماتم کناں ہے!” اب معاشرتی خون ہوں یا معاشی، جمہوریت کی جان جائے یا انسانیت کی درد بھری چیخ و پکار ہو، ایک طبقہ ایسا بینڈ باجا لے کر اٹھتا ہے، غموں کے کانوں اور مکانوں کی دہلیز پر ایسی محفل موسیقی برپا کردی جاتی ہے کہ سسکیاں خود بھی اپنی آواز نہ سن سکیں اور شہادتیں آندھی اور بہری ہوجائیں، گویا شہادت حق کی آنکھوں میں بھی دھول جھونک دینے میں وہ طبقہ ماہر ہے۔ ماہر ہے وہ صاف شفاف چیزوں کو دھندلا اور واضح اشیا کو مضطرب کرنے کیلئے!
بی بی اجالے کی تلاش میں پاکستان لَوٹی تھی، وہ جمہوریت کے آفتاب کی آب و تاب کی متمنی تھی۔ اسے روکا گیا، اسے مارنے کی اطلاع تک پہنچائی گئی, کہ وہ نئی تاریخ کا آغاز کرنے واپس نہ ائے ورنہ اسے اس کے باپ کی طرح نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا مگر وہ رکنے والی کہاں تھی، وہ اس دَور کے آمر پرویز مشرف کو چیلنج دے چکی تھی، اس نے اپنے سیاسی حریف کو جمہوری حلیف بنالیا تھا اور اس کے نتیجہ میں میں سامنے آنے والا میثاق جمہوریت آمر کو ایک آنکھ نہ بھا رہا تھا۔ بی بی اپنے اس سیاسی حریف کو بھی مقتدر کے زندان سے نکال لائی، میاں نواز شریف بھی میثاقِ جمہوریت کی شاہراہ پر چل کر جال وطنی ترک کر ایا، کہتے ہیں لوگ کہ میاں نواز شریف، پرانا میاں نواز شریف رہا ہی نہ تھا، شاید آج کے نعرے، ووٹ کو عزت دو میں وہی میثاقِ جمہوریت والی رمک کے آثار ہیں۔
وہ جو بی بی سانحہ کارساز کا سامنا کرنے کیلئے وطن لوٹی تھی، وہ تو ارتقاء سے ایفا اور وفا کا استعارہ بن ہی چکی تھی تاہم میاں نواز شریف کو بھی تبدیلی فراہم کرنا ایک اور ہی عمل اور اقدام تھا جو آج تاریخ دیکھ بھی رہی ہے اور ایک اور ارتقا کا دور دورہ ہے۔
ستم تو یہ ہے ہمیشہ سے کہ جمہوریت کو چاہا ہی نہیں جا رہا چاہنے والوں کی طرح اور ظالم جمہوریت شناس نہیں مگر اس جمہوریت کی تسبیح کی منافقت اور راگ الاپنے کا بےسُرا پن نیم جمہور پپسندوں، انجنیئرڈ جمہور پسندوں اور آمریت پسندوں کی جانب سے مسلسل جاری ہے۔ سانحہ کارساز کی قربانی سے بےنظیر بھٹو کی شہادت کا سارا سفر تو حقوقِ انسانی کی منزل کو چومنا تھا، گر لاشیں چومنی پڑ گئیں مگر لواحقین کو تو زندگی کی علامت اور صداقت بہرحال بننا تھا اور بننا ہے!
تاریخِ پاکستان گواہ ہے اور چشم فلک نے بارہا دیکھا، کہ آمروں نے کئی تجربات کئے، کئی قیامتیں برپا کیں مگر ساڑھے سات عشروں میں ریاستی شادمانیاں کم اور تلخیاں زیادہ رہیں۔ آئین کو پامال کرنا ایک ادا ٹھہری، من مانی کو قانون سمجھنا فنکاری سمجھا گیا سِتم ظریفی نہیں۔۔۔۔
سانحہ کارساز ہنوز قاتلوں کی سزاوں کا خواہاں ہے مگر سزا کے بجائے جزا کو تقویت بخشی گئی۔ بےنظیر شہادت بھی اوپن سیکرٹ تھی اور ہے! قربانیوں سے بھری پاکستان کی داستان، جستجووں والی پاک تاریخ اور جمہوریت کی چاہت والی انسان دوستی آج بھی امتحان میں ہے۔ آج بھی لوگ 1973 کے آئین کا مکمل نفاذ اور 18 ویں ترمیم کی حُرمت کا پھل چاہتے ہیں۔ آج بھی عوام لیڈرشپ پر تکیہ کرتے ہیں گو بار بار دھوکے کھا چکے مگر حسنِ ظن کا کمال اور جمال آج بھی عوامی آنکھوں میں چراغ کی طرح روشن ہے!
مگر ایسی دردناک تاریخ کو جب بھی سپردِقلم کرنے بیٹھیں، گرتے ہیں لفظ وَرق پر لہو لہو ہو کر. جب تک یہ نہیں مانا جائے گا کہ ملکی سالمیت اور لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے آئین کو مدنظر رکھنا ضروری ہے بصورتِ دیگر صرف اشرافیہ کا بھلا ہے یا جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے اسی کی بھینس ہے. تحریک کو گر تاریخ کا دامن میسر ہو تو تاریکی کو دور ہونا ہی پڑتا ہے.
جمہوری بناؤ نہ ہوا تو ایسے سانحے حادثوں کو پیچھے چھوڑتے رہیں گے۔ بناؤ کے مشن مستحکم ہوں گے تو بگاڑ کا مشن کبھی مکمل نہیں ہوگا. قربانیاں وہ داستانیں چھوڑتی ہیں جو رہنما ہوتی ہیں اور رہنمائی کو متشکل کرتی ہیں, ان میں فہم و فراست والوں کیلئے نشانیاں ہیں اور عزم بھی!
بشکریہ:روزنامہ جنگ
یہ بھی پڑھیے:
محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود
اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود
عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود
زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ