وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب کے سکولوں میں رواں تعلیمی سال سے یکساں نصاب تعلیم رائج کر دیا گیا ہے۔ ’رائج کرنا‘ از رہ احتیاط لکھا ہے۔ مسلط کرنے کا پیرایہ بیان قرین مصلحت نہیں اور ’نفاذ‘ کا امکان ورائے حقیقت ہے۔ آپ کے اس نیاز مند کو لے دے کر اردو کے نصاب ہی میں دلچسپی ہو سکتی تھی لیکن سچ بتا رہا ہوں کہ مبلغ یک صد روپلی خرچ کر کے پانچویں جماعت کے لئے تجویز کردہ اردو کی نصابی کتاب دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ وہی حیدر آباد دکن کے دو وضع دار دوستوں کی حکایت ہے جن میں ایک نے کہا تھا کہ ’ہم سے یہ دردناک منظر دیکھا نہیں جائے گا‘۔ نامعلوم ان تازہ خدایان علم و ادب نے مولوی اسماعیل میرٹھی کو نئے نصاب میں جگہ دی یا بچوں کے لئے موہن لغت میں دل آویز نظم لکھنے والا یہ محسن اردو ادب بھی نظریاتی اساس کے دو پاٹن میں گھن کی طرح پس گیا۔ میرٹھ کے مولوی صاحب آج اس لئے یاد آئے کہ ان کے ایک معروف شعر کا مصرع ثانی لکھنا تھا۔ مصرع اولیٰ میں مولوی صاحب نے جھگڑا کرنے والے فریقین کے لئے جو اسم صفت استعمال کیا تھا، وہ خوف فساد خلق کی نذر ہو گیا۔ مصرع ثانی کی نصیحت البتہ بے ضرر اور سبق آموز ہے۔ ’اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ‘۔ ایک ہفتہ ہونے کو آیا۔ صبح میں اخبارات دیکھتا ہوں، شام ڈھلے ٹیلی ویژن اسکرین پر کوزہ گر کی صناعی کے فری سٹائل نمونوں کی بے کراں فراست سے استفادے کے لئے گھنڈی دبا کے بیٹھ جاتا ہے۔ مجال ہے کہ اس خبر کا کوئی ذکر ملے جس نے کوئی دس روز سے قوم کو امید و بیم کی الگنی پر ٹانگ رکھا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ’ہے خزاں بھی سراغ میں گل کے‘۔ یہ خود ساختہ نورتن، لیموں نچوڑ بہ اعتبار روزگار، دریائے خوشامد کے میر مچھلی پیراک اور فن قصیدہ گوئی کے امام اس لئے خاموش ہیں کہ استاد ثاقب لکھنوی نے کہہ رکھا ہے، ’ہے روشنی قفس میں مگر سوجھتا نہیں / ابر سیاہ جانب گلزار دیکھ کر‘۔ اگر آپ کی طبع نکتہ رس مہمیز ہو تو مصرع ثانی میں ’گلزار‘کو ’کوہسار‘ سے بدل ڈالیے کہ دارالحکومت اسلام آباد کی ایک بستی ہے۔
عزیزو، جہاں ایسے خود بین و خود آرا سانس روکے بیٹھے ہوں، بام حرم کے خوش رنگ کبوتروں نے چونچ پروں میں دبا رکھی ہو، ہم بندگان بے نام، مشت ہائے خاک سررہگزار کس شمار میں ہیں۔ الف لیلیٰ کے جنونی حکمران شہر زمان کی تلوار کی چھاؤں میں کہانیاں کہنے والی شہرزاد ہم سے کہیں زیادہ مقدرت رکھتی تھی کہ اس کی زنبیل میں ہر رات کہنے کو ایک کہانی تو تھی۔ ہم فرومایہ تو کہانیاں تک مانگے تانگے کی سناتے ہیں۔ تو چلیے آج اسی داستان ہزار شب کی ایک کہانی کا خلاصہ رہے۔ عنوان ہے، ’سوتے جاگتے کی حکایت‘ ۔ اگر کوئی اس کہانی سے وطن عزیز کے حالات حاضرہ کا کوئی تعلق دریافت کرنا چاہے تو یہ اس کا اور خداوندان مملکت کا باہم معاملہ ہے۔ درویش کا دامن اس تہمت سے پاک ہے۔
بغداد میں ابوالحسن نام کا ایک رئیس زادہ رہتا تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد داد و دہش کی سوجھی۔ ہر شام ظاہر دار بیگ نما دوستوں کی منڈلی جمتی۔ مال مفت ہو تو ’برات عاشقاں بر شاخ آہو‘ چہ روز؟ دولت ختم ہوئی تو مجلس احباب بھی بکھر گئی۔ گھر میں کچھ پونجی باقی تھی، ابوالحسن نے سنبھل کر تجارت کی تو مالی معاملات پھر سے استوار ہو گئے۔ ابوالحسن کو بغداد کے مطلب پرست شہدوں سے تنفر ہو گیا تھا مگر جب شام ہوتی تو صحبت نازک خیالاں کی ہڑک اٹھتی۔ اس کا حل یہ نکالا کہ غروب آفتاب کی گھڑی میں فصیل شہر سے کسی مسافر کو اپنے ہمراہ لاتا۔ طعام میں شریک کرتا۔ ایک روز اتفاق سے تین معزز سوداگر مل گئے۔ یہ سوداگر دراصل خلیفہ ہارون الرشید، وزیر جعفر برمکی اور غلام مسرور تھے جو بھیس بدل کر شہر کے حالات دیکھنے نکلے تھے۔ ابوالحسن کی میزبانی سے لطف اندوز ہوئے۔ بے تکلف گفتگو میں ابوالحسن نے برسبیل تذکرہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر ایک روز کے لئے حکومت مل جائے تو شہر کے بدمعاشوں کو ٹھکانے لگا دے۔ بادشاہ کو خوش طبعی سوجھی۔ قبلہ ابوالحسن کو سفوف بے ہوشی کی مدد سے محل سرا میں پہنچا کر سب کنیزوں اور خدام کو ہدایت کر دی کہ مہمان کو ایک روز کے لئے بادشاہ سلامت تصور کیا جائے، تمام احکامات کی تعمیل ہو۔ ابوالحسن نے ایک روز کے لئے شہریاری کے مزے لوٹے۔ رات گئے پھر سے اپنے ٹھکانے پر پہنچا دیے گئے۔ صبح بیدار ہوئے تو اطلس و کمخواب خیال و خواب ہو چکے تھے۔ شجرة البدر اور نورالصباح نامی کنیزوں کی کوئی خبر نہیں تھی۔ بوڑھی ماں البتہ حسب سابق موجود تھی۔ ابوالحسن خود کو خلیفہ تسلیم کر چکے تھے۔ گزشتہ روز کی کارگزاری کے شواہد بھی موجود تھے۔ ایسے غضب میں آئے کہ کوتوال نے انہیں پاگل قرار دے کر بندی خانہ بھیج دیا۔
یہ کہانی دلچسپ مگر قدرے طویل ہے جس میں ابوالحسن پر یہ واردات ایک بار نہیں، دو مرتبہ گزری۔ کالم کی تنگنائے میں الف لیلیٰ کی وسعت نہیں سما سکتی۔ اردو اور انگریزی میں بہت اچھے تراجم موجود ہیں۔ وقت مہلت اور ذوق اجازت دے تو خود لطف اٹھائیے گا۔ درویش کو البتہ اس سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ ابوالحسن کا اختلال حواس خلیفہ ہارون کی خوش فعلی کا نتیجہ تھا یا وہ محترمہ زینت القلوب کے حسن جہاں سوز کا نخچیر قرار پایا یا اس کی اپنی افتاد میں خرابی کی کوئی صورت تھی؟ آج ہم الف لیلیٰ کی دنیا سے بہت آگے نکل آئے ہیں لیکن بخشیدہ اقتدار کی حرکیات وہی ہیں۔ اختیار کی بنیاد میں بھونچال رکھا ہو تو فصیل شہر مٹی کی منڈیر میں بدل جاتی ہے۔ زلف ایاز کے خم کی مستقل تابداری کا ایک ہی راستہ ہے، جمہور کی حکمرانی، دستور کی بلافصل بالادستی، شفاف فیصلہ سازی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم۔
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر