مہرین فاطمہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت (عربی سے ماخوذ۔ انگریزی: Woman) یا زن (فارسی سے زنانہ) مادہ یا مؤنث انسان کو کہا جاتا ہے۔
عورت یا زنانہ بالغ انسانی مادہ کو کہاجاتا ہے جبکہ لفظ لڑکی انسانی بیٹی یا بچّی کے لیے مستعمل ہے۔ تاہم، بعض اوقات، عورت کی اِصطلاح تمام انسانی مادہ نوع کی نمائندگی کرتی ہے۔
عورت تاریخ کے ہر دور میں مرد کے تابع رہی ہے۔ موجودہ زمانہ میں ترقی یافتہ ملکوں میں عورت اور مرد کو مساوی بنانے کی کوشش کی گئی۔اسلام سے قبل عورت کی حالت زار نہ قابل بیاں تھی۔ عورت کو محض بچے پیدا کرنے اور خاوند اور بچوں کی خدمت کے قابل ہی سمجھا جاتا تھا۔ عرب معاشرے میں عورتوں کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی تھی۔ گھر میں عورت کے وجود کو مرد اپنی توہین سمجھتا تھا۔ عرب معاشرے میں بچیوں کو زندہ دفن کرنے کا بھی رواج تھا۔ لیکن جب اسلام کا سورج عرب کی سر زمین پر طلوع ہوا تو اس سے عورت کی تاریک زندگی میں بھی روشنی کی بارش ہونے لگی۔ اسلام دین فطرت ہے جس کی تعلیمات کے مطابق بنیادی حقوق کے لحاظ سے سب انسان برابر ہیں۔ سب انسان آدم کی اولاد ہیں۔اس لحاظ سے اسلام میں جنس کی بنیاد پر عورت مرد کی کوئی تفریق نہیں. قرآن و حدیث میں کثیر تعداد میں ایسے احکامات موجود ہیں جس سے اسلام میں عورت کے مقام ، اہمیت اور اس کے حقوق کا تعین ہوتا ہے چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
"لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا یعنی اؤل اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد اور عورت پیدا کر کے روئے زمین پر پھیلا دیے۔”( سورت النساء آیت نمبر : 1)
عورت وہ لفظ ہے جو انسان کو عزت و حرمت سے آگاہ کرتا ہے جس کے وجود سے کائنات میں رنگ ہیں۔ اسلام نے خواتین کو حکومت، سیاست، قیادت ، انتظامات ،مشاورت سمیت زندگی کی تمام اہم ذمہ داریاں سونپ دیں۔
قرآن مجید کی سورۃ النحل( آیت نمبر 97) میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
"جو شخص نیک عمل کرے گا مرد ہو یا عورت اور مومن بھی ہو گا تو اس کو (دنیا میں) پاک اور (آرام کی ) زندگی سے زندہ رکھیں گے اور ( آخرت میں) ان کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے۔”
عرب معاشرے میں اسلام کی آمد سے پہلے دور جاہلیت میں لڑکی پیدا ہونے پر اسے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔اسلام نے لڑکی کو رحمت اور گھر کا سکون بنایا ۔ اسلام نے عورت کو ذلت سے چھٹکارا دلا کر عزت و حرمت سے نوازا اور عورت کو زندہ دفنانے کی جاہلانہ رسم ختم کی۔
اسلام نے عورت کو مساوی حقوق عزت کا تحفظ، وراثت میں حصہ، ، حق مہر ، خلع کا حق، تعلیم و تربیت ، علیحدگی کی صورت میں اولاد رکھنے کا حق، رائے دہی کا حق ، مشاورت کا حق دیا۔ اسلام میں عمل اور اجر میں مرد اور عورت مساوی حقوق کے حامل ہیں کیونکہ قرآن مجید میں واضع کر دیا گیا ہے کہ:
"مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کیے۔ اور عورتوں کو ان کے کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کیے اور اللّٰہ سے اس کا فضل و کرم مانگتے ہیں.”
قرآن مجید کے لیے کئی احادیث مبارکہ میں بھی عورتوں کے حقوق و فرائض اور ان کی معاشرے میں اہمیت کا ذکر موجود ہے۔ خود دو جہان کے محبوب صلی اللّٰہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ:
"جس نے دو لڑکیوں کی کفالت کی تو میں اور وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے، جس طرح دو انگلیاں ، جس طرح میری یہ دو انگلیاں برابر ہیں۔”
آخری خطبہ الحجہ میں بھی آپ صلی للہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ : "اے مسلمانوں عورتوں کے معاملے میں اللّٰہ سے ڈرو۔”
حضرت عائشہ، حضرت فاطمہ اور حضرت زینب نامور خواتین کی وہ زندہ مثال ہیں جو ظلم و جبر کے سامنے ثابت قدم رہیں اور مشکل کی گھڑیوں میں مسلم خواتین کی راہنمائی کرتی رہیں۔
پاکستان کا قیام اس طویل جدوجہد کا ثمر ہے جو مسلمانان برصغیر نے اپنے علیحدہ قومی تشخص کی حفاظت کے لئے شروع کی۔ اس عظیم جدوجہد میں برصغیر کی مسلم خواتین نے بھی لازوال کردار ادا کیا جو اپنی مثال آپ ہے۔ ان خواتین میں فاطمہ جناح، بیگم مولانا محمد علی جوہر، بیگم سلمی تصدق حسین، بیگم جہاں آرا شاہنواز، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم پروفیسر سردار حیدر جعفر، بیگم گیتی آرا، بیگم ہمدم کمال الدین، بیگم فرخ حسین، بیگم زریں سرفراز، بیگم شائستہ اکرام اللّٰہ، فاطمہ بیگم اور لیڈی نصرت ہارون سمیت کئی مسلم خواتین شامل ہی۔ں یہ وہ خواتین ہیں جو بیسویں صدی میں عملی ، معاشرتی ، تعلیمی، سیاسی میدان کی جانباز اور نڈر کارکن رہیں۔ ان میں سے چند خواتین کا تحریک پاکستان میں کردار یہ ہے:
* قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح تحریک پاکستان کی جدوجہد میں اپنے بھائی کے قدم بہ قدم ساتھ رہیں اور مسلم خواتین کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی متحرک ممبر تھیں۔
* بیگم سلمی تصدق حسین مسلم لیگ کے شعبہ خواتین کے قیام کے بعد مسلم خواتین کو مسلم لیگ کی رکن بنانے کی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ مارچ 1940ء میں لاہور میں منعقد مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے آنے والی سیاسی رہنماؤں کی بیگمات اور خواتین وفود کی میزبانی کا فریضہ بھی انجام دیا۔
* بیگم شائستہ اکرام اللّٰہ مسلم گرلز فیڈریشن کی روح رواں تھیں اس زمانے میں نوجوان لڑکیوں کو منظم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ آپ نے ہندوستان کی خواتین کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
* بیگم رعنا لیاقت علی پاکستان کی پہلی خاتون اول پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی کی بیگم تھیں۔ انھوں نے قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی بحالی کے لئے خدمات سر انجام دیں۔ وہ سندھ کی پہلی خاتون گورنر تھیں۔ پاکستان بننے سے قبل آپ نے عورتوں کی ایک تنظیم آل انڈیا پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن قائم کی۔
* تحریک پاکستان کی رہنما بیگم مولانا محمد علی جوہر اپنی خوشدامن ” بی اماں” کے ہمراہ تحریک خلافت میں بھر پور حصہ لیا ۔ انہوں نے ناں صرف خواتین بلکہ مردوں میں بھی سیاسی شعور بیدار کیا
* بیگم جہاں آرا شاہ نواز بیرسڑ شاہ نواز کی اہلیہ تھیں ۔ 1930ء میں پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے لندن گئیں۔ پھر دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس میں بھی شرکت کی ۔1940 ء میں مسلم لیگ کے اہم تاریخی اجلاس میں شرکت بھی کی ۔
* لیڈی نصرت ہارون نے بھی تحریک خلافت میں بھرپور ساتھ دیا۔ 1925ء میں انہوں نے کراچی میں ” اصلاح الخواتین” کے نام سے ایک انجمن قائم کی جسے کراچی میں پہلی مسلم انجمن کا اعزاز حاصل ہے.
مختصر تحریک پاکستان میں خواتین نے اہم کردار ادا کیے۔
عہد حاضر میں قومی ترقی میں بھی خواتین کا کردار بہت اہم ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ خواتین کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہیں. پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں خواتین اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں ۔ تعلیمی درسگاہوں سے لے کر ایوان تک ہماری باصلاحیت خواتین نے اپنے نام روشن کیے۔ملک میں عام لوگوں کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لئے خواتین انفرادی اور اجتماعی طور پر خلوص نیت سے سرگرم عمل ہیں۔ خواتین کسی بھی حوالے سے مرد سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ معاشرے میں خواتین کا کردار دوہری حیثیت کا حامل ہے ۔
*محترمہ بینظیر بھٹو دو بار پاکستان کی وزیراعظم بنیں۔
* ارفع کریم رندھاوا نے 9 سال کی عمر میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں اعلیٰ قابلیت پر سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔
* ملک کی بینکوں اور دوسرے اداروں میں بھی خواتین نے اہم کردار ادا کیا۔ مثلاً شمشاد اختر سٹیٹ بینک آف پاکستان کی گورنر رہ چکی ہیں۔
* سماجی شعبے میں محترمہ بلقیس ایدھی کئی دہائیوں سے لاکھوں پاکستانیوں کی زندگی میں بہتری لانے میں مصروف عمل ہیں۔ بلقیس ایدھی پاکستان کی حکومت سے تمغہ امتیاز بھی حاصل کر چکی ہیں
* محترمہ ڈاکڑ نفیس صادق انڈر سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہ چکی ہیں ۔ وہ دنیا کی پہلی خاتون تھی جو اقوام متحدہ میں اتنے اعلیٰ عہدے پر فائز رہیں۔
* ثمینہ بیگ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جو کے- ٹو سر کر چکی ہیں ۔ اس کے علاؤہ ثمینہ دنیا کے سر براعظموں کی سات بلند ترین چوٹیاں بھی سر کر چکی ہیں۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں عزم و ہمت کی مثال قائم کی۔
خواتین پاکستان میں تقریباً تمام شبعوں مثلاً فوج ،صحت، تعلیم ، کھیل ، شوبز اور سیاست میں نمایاں کردار ادا کر رہیں ہیں اور یہ ثابت کر رہی ہیں کہ وہ ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
مہرین فاطمہ دا تعلق ضلع مظفر گڑھ نال ہے، ایم اے سرائیکی ہن،2019ء توں مختلف موضوعات تے لکھن شروع کیتے ، سرائیکی وسیب دے مختلف اشاعتی اداریاں اچ انہاں دیاں لکھتاں چھپدیاں ریہہ ویندین، سرائیکی افسانیاں دا مجموعہ زیر طباعت ہے
MashaAllah behtreen Kamal . Bht acha likhti ho ap