گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرصہ ہوا مجھے جرمنی کے شھر فرینکفرٹ اور پھر برلن جانے کا موقع ملا۔ باہر کے ملکوں میں ہمارے پاکستانی اپنے ہم وطنوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور خصوصی دعوتوں کا اہتمام بھی کر تے ہیں۔ ان کے دل پاکستان میں اور جسم وہاں ہوتا ہے۔ جب محفلیں جمتی ہیں تو وہ اختر شیرانی کی طرح اپنے دیس کا حال معلوم کرنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں ۔اختر شیرانی نے کہا تھا ؎او دیس سے آنے والے بتا۔۔کس حال میں یاران وطن ۔۔ حالانکہ آجکل میڈیا کا دور ہے اور ہر جگہ خبریں آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں۔ مگر وہ تمام خبریں
from the horses mouth
سن کر بہت خوش ہوتے ہیں خاصکر صحافیوں کی باتوں میں کچھ آف دی ریکارڈ خبریں بھی ہوتی ہیں۔ ایک دفعہ جب برلن میں رات کے کھانے پر محفل جمی تو میں نے وہاں رہنے والے کچھ پاکستانیوں سے پوچھ لیا کہ آپ نے کیوں یہاں آنا پسند کیا؟ ان دنوں یہاں کچھ امن آمان کے مسائیل تھے تو اکثر دوستوں نے کہا کہ امن و امان اور بے روزگاری کی صورت حال سے مجبور ہو کر یہاں چلے آے۔جرمنی میں امن ہے اس لیے یہاں وہ خوش ہیں۔خیر ہمارے ایک سینیر اور تجربہ کار صحافی نے انہیں بتایا کہ امن کا تعلق کسی ملک سے نہیں بلکہ امن کی ایک قیمت ہے اگر آپ وہ ادا کر دیں تو امن قائم ہو جاتا ہے۔ ہم سب اس بزرگ کا منہ تکنے لگے اور پوچھا وہ قیمت کیا ہے؟ تو انہوں نے فورا” جواب دیا وہ قیمت ہے adjustment اور کمپرومائیز ۔ وہ کہنے لگے ہمارے ملک میں جتنے مسائل ہیں وہ سب یہاں جرمنی میں موجود ہیں مگر آپ ایڈجسٹ کر رہے ہیں۔ اس ملک میں آپ کی مذھبی آذادی محدود ہے مگر آپ سڑکیں بلاک نہیں کر سکتے۔بعض اوقات یہاں کے انتہا پسند شھری آپ کی کیمونیٹی کی توہین تک کر دیتے ہیں سکارف پہننے کے مسائیل ہیں مگر آپ برداشت کر رہے ہیں۔ وطن میں آپ ان مسائیل پر احتجاج کرتے ہیں بے برداشت ہو جاتے ہیں اور یہاں خاموش رہتے ہیں اگر سب لوگ اپنے ملک میں یہی رویہ اختیار کریں تو کتنا سکون ہو جاے۔مگر وہاں آپ ٹالرنس کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ پھر کہا جاپان دوسری جنگ عظیم میں عسکریت کے راستے پر چل رہا تھا مگر دوسری جنگ عظیم میں نقصان اٹھانے کے بعد جاپان نے اپنا راستہ بدل لیا۔اس نے خاموشی سے ساری توانائیاں تعلیم پر خرچ کرنی شروع کیں اور سائینس و ٹکنالوجی میں ترقی کو اپنا ٹارگٹ مقرر کر دیا نتیجہ یہ نکلا کہ چالیس سال میں جاپان کی تاریخ بدل گئی۔پرانی بات ہے بیگم شائستہ اکرام اللہ جو 1964میں مراکو میں پاکستان کی سفیر بھی تھیں نے قائداعظم محمد علی جناح سے متعلق کچھ یاداشتیں لکھیں ۔جس میں قائید نے کہا کہ انہوں نے ایک بھیڑ crowd کو ایک قوم کی صورت دی۔قوم وہی ہوتی ہے جس میں مثبت سطح پر یکساں سوچ آجاے۔اس کے اندر مستحکم کردار پیدا ہو جاے وہ اختلافات کو نظرانداز کرتے ہوے دوسروں کا ساتھ دینے پر راضی ہو۔وہ قوم ذاتی مقاصد سے اوپر اٹھ کر بلند تر انسانی مقاصد کے لیے جینے لگے۔اتحاد وہ ہے جو روزانہ کی حقیقی زندگی میں نظر آے۔جلسے جلوس دراصل ایک بھیڑ کی مانند ہوتے ہیں جن کو لوگ غلطی سے اتحاد اور حمایت تصور کر لیتے ہیں۔ اس وقت ہم پاکستان کی حالت دیکھیں تو لوگوں میں اتحاد کا فقدان ہے۔ ہمارے لیڈر ایک دوسرے کے خلاف دست و گریبان ہیں۔ عوام کے اندر فرقہ وارانہ۔نسلی اور۔جغرافیائی نفرتیں پیدا کی جا رہی ہیں تو آپ غور کریں کہاں سے صدا آے لا الہ الا اللہ۔ ہمیں آج واپس اتحاد و یکجہتی کی طرف لوٹنا ہوگا ہمیں علم کی ترقی پر توجہ دینی پڑے گی ہمیں یہ عھد کرنا ہو گا کہ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلام کا قلعہ بنا دیں گے۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں اور ہمیں اس بات کا دھیان بھی نہیں کہ کتنی بڑی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر آ پڑی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ