فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکتوبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی پاکستان کے بالائی علاقوں میں برف پڑنا شروع ہوجاتی ہے جس سے موسم سرد ہونا شروع ہوجاتا ہے جبکہ پہاڑی اور میدانی علاقوں میں بارشوں کے باعث وہاں بھی ٹھنڈ بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ اسی سرد موسم کا اثر پاکستان کے پاور کوریڈورز میں سارا سال دیکھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ نہ سیاست نہ اقتدار کے سینے میں دل ہوتا ہے۔ یہ تو پاور گیم کی بساط ہے جس پر کھیل پوری شدت سے جاری ہے۔ اب کون کون سے کھلاڑی اس کہرے میں کھیلے جانے والے پاور گیم کا حصہ رہیں گے اور کون سے باہر ہوجائیں گے اور کون سے ریزرو کھلاڑی ہوں گے یہ سب تو وہی طے کرتے ہیں جنہوں نے اس سرد موسم میں اقتدار کی بساط بچھائی ہے۔
ان کی اس بساط پر کھلاڑی ڈھائی چال چلے یا پھر دو قدم چلے یا اس کی مجبوری کے وہ ایک ہی سیدھ میں چلتا جائے اور کسی نہ کسی خانے تک پہنچ جائے یا پھر ٹیڑھی چال چل کر منزل تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ اس بساط پر کھلاڑیوں کی ایک سے بڑھ کر ایک دوسرے کے خلاف چالیں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ بازی اب پلٹی کہ تب پلٹی برف جیسی سرد دھند میں لپٹی اس بساط پر قدم جما کر رکھنا بھی کھلاڑیوں کا اصل امتحان جو ذرا قدم پھسلا تو بس شہ مات۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس بساط پر موجود ہر کھلاڑی کو لگتا ہے وہی سب سے اہم ہے لیکن اس بساط کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس پر موجود ہر کھلاڑی بس ایک مہرہ ہے جسے خود بھی نہیں پتہ کہ کھیل میں کب اس کا کردار ختم کیونکہ یہ تو دھند میں کھیلے جانا والا کھیل ہے جس میں کھلاڑیوں کا بھروسا تاحد نگاہ پھیلے دھندلے اندھیروں میں اپنی چالوں پر ہے۔
جس کھلاڑی کو لگتا ہے کہ وہ سب سے اہم ہے جب کھیل کی آخری بازی شروع ہوتی ہے تو اس کو پتہ چلتا ہے کہ وہ تو اس کھیل کا حصہ ہی نہیں ہے اس کی جگہ تو ریزرو کھلاڑی آ گیا
اس سرد دھند میں لپٹی اقتدار کی بساط تو اس کے بادشاہ گروں کے پاس ہی رہے گی کیونکہ کھیل بھی ان کا کھلاڑی بھی ان کے اب ان کی مرضی کہ کھیل کب تک چلے اور کب ختم ہو جائے۔ اس بساط پر آنے والے کھلاڑی یا تو کھیل میں رہیں گے یا پھر نہیں رہیں گے اگر مگر کا تو سوال ہی نہیں۔
یہ بارہ اکتوبر سال 99 کی بات ہے جب نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور پرویز مشرف نے اقتدار کی بساط کو جیت لیا اور ان کے مہرے بڑی کام یابی کے ساتھ اس بساط پر قدم جما کر رکھے رہے مگر کھیل کیونکہ لمبا ہوتا چلا جا رہا تھا اور کھلاڑی بھی ٹامک ٹوئیاں مارتے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے اس لیے بادشاہ گروں کی جانب سے گیم اوور کر کے ایک بار پھر نئی بساط بچھا دی گئی اور سب سے مزے کی بات اس بساط پر اس بار پرانے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ کچھ ریزرو کھلاڑیوں کو بھی اس بساط پر جگہ مل گئی۔
پرانے کھلاڑیوں کو لگا شاید بازی اس بار پلٹی ہے شاید دھند میں کچھ کمی ہوگی کھیل پر نظر ٹکائے تماش بین بھی یہی سوچ رہے تھے کہ کیا اس بار کھیل بادشاہ گروں کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ مگر اس کھیل کی تو خاص بات یہ ہے کہ یہ تو فریب نگاہ ہے کھیل تو بس ان کا جن کے ہاتھ میں یہ بازی ہے۔ مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی کے دور میں کبھی ججز بحالی تحریک کبھی سپریم کورٹ کے دروازے پر تو کبھی لانگ مارچ کی دہائیاں دیتے دیتے آخرکار ایک بار پھر بساط کے آخری پڑاؤ تک پہنچنے میں کام یاب ہو گئی اور اس کو لگا کہ اقتدار کی یہ بساط پر بس آخری چال ہے جہاں انہوں نے بادشاہ کو محاصرے میں لے کر گیم اوور کرنے کا اعلان کرنا ہے۔
لیکن یہ بازی تو عشق کی بازی سے بھی مشکل ہے اس کے تو قدم قدم پر پھسلن ہے کہر ہے اور موت جیسا سکوت ہے۔ اس کھیل کی بساط پر من مانی اور غلطی دونوں کی گنجائش نہیں ہے اس کھیل کے ضابطے بھی ان کے جن کی بازی ہے اور جیت بھی انہی کی جن کے ہاتھ میں سب مہرے ہیں۔
تبدیلی تبدیلی کا نعرہ لگاتے اس بساط پر نئے کھلاڑی کی انٹری تو سب نے دیکھی لیکن یہ تو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ کھیل کا سب سے غیر اہم سمجھے جانے والا کھلاڑی اس بساط پر سب سے اہم مہرہ بننے والا ہے۔
لانگ مارچ اور کرپشن کے خلاف کف اڑا اڑا کر نعرے لگانے والے اس کھلاڑی کو تو تماش بینوں نے تو سر پر بٹھا لیا اور بادشاہ گروں کا تو سب سے پسندیدہ مہرہ قرار پایا۔ مگر تین سالوں میں سوائے ایک پیچ کے نعرے لگانے وفاقی وزرا کے دن رات اپوزیشن کو برا بھلا کہنے فوٹو سیشنز اور سوشل میڈیا پر اپنے مخالفین اور ناقدین کی دھجیاں اڑانے کے اس اہم مہرے نے کھیل کو بس جاری رکھا۔
لیکن اچانک سے اس کھیل میں سرد مہری اور سنگینی بڑھنے کا احساس جاگا ہے۔ کھلاڑی کو اپنی چالوں پر بھروسا ہے اسے مان بھی بہت کہ اسے بادشاہ گروں کا ساتھ حاصل ہے۔ لیکن کھلاڑی یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ کھیل دھند اور کہر میں لپٹا ہے اس کھیل کی بساط پر کھلاڑی اتنی دیر تک جتنی دیر تک چال اور اندازے مہربان ورنہ تو کھیل ختم کرنے کے لیے کہاں یاں ڈان لیکس سے بھی زیادہ خطرناک موجود ہیں۔
پتہ نہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ شاید اس بساط پر جاری ارمانوں بھرا یہ گیم کسی بھی وقت اختتام کو پہنچا ہی چاہتا ہے۔ بات ایک پیچ سے شروع ہو کر ایک بار پھر الگ پیچ پر پہنچ ہی گئی ہے۔
سرگوشیوں اور آوازوں میں تبدیل ہوتی اس کھیل کی نئی چال پر تماش بینوں کی نظریں پھر ٹک کر رہ گئی ہیں۔ ایک بار پھر سب سانسیں روکے اس کھیل کے پلٹنے اور آخری بازی پر نظر جما کر بیٹھ گئے ہیں۔ مگر اس کھیل کی تو خوبصورتی بھی تو یہی ہے کہ تماش بین بھی تو بھول جاتے ہیں کہ اس بساط پر آخری چال بھی بادشاہ گر کی مرضی کی ہوگی بادشاہ کی نہیں کیونکہ کھیل میں بادشاہ کی نہیں دوسرے مہروں کی اہمیت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ محاصرے میں آیا بادشاہ اپنے آپ کو بچانے میں کام یاب ہو جائے گا یا تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرائے گی اور اگر نہیں بھی تو اس نوٹیفیکشن کی تلخی اب دونوں کے درمیان رہ جائے گی۔
ویسے کہتے ہیں ستم گر ہوتا ہے ستمبر لیکن پاکستان میں تو ستم گر ہے اکتوبر جہاں موسم بھی اپنا مزاج بدل رہا ہے اور اقتدار کی بساط پر بھی دھند اور کہرے کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور اس دھند کے پار بھی تو کیا بس دھند ہی تو ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر