عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضلع کیچ ابھی تک تاج بی بی اور رامز خلیل کے قتل کے غم میں مبتلا تھا کہ کیچ کے علاقے ھوشاب دو معصوم بچے مارٹرگولہ کے فائر سے جان بحق ہوگئے۔ مارٹرگولے کی فائرنگ سے 7 سالہ اللہ بخش ولد عبدالواحد اور 5 سالہ بچی شرارتوں بنت عبدالواحد موقع پرجاں بحق ہوگئے۔ جبکہ مارٹر کی زد میں آکرایک بچہ مسکان ولد وزیر شدید زخمی ہوا۔ جاں بحق بچوں کی میتیں لے کرلواحقین نے تربت شہر کے مصروف ترین علاقہ شہید فدا چوک پر دھرنا دے دیا- اس دھرنے میں آل پارٹیزکیچ اور دیگرمکاتب فکر کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اور احتجاج میں شریک ہوگئے۔ احتجاج کرنے والوں کے مطابق ان کے بچوں کے قتل میں ایف سی ملوث ہے۔واقعہ میں ملوث اہلکاروں کی سزا اور انہیں انصاف دیا جائے۔ جبکہ ڈی سی کیچ نے ایک سرکاری ہینڈ آؤٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ان بچوں کی موت ہینڈگرنیڈ سے کھیلنے سے ہوئی ہے۔ جس پر لواحقین نے ڈی سی کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر انصاف دے نہیں سکتے۔ تو غلط بیانی مت کریں۔ اس سے قبل بھی تاج بی بی کے قتل کی ایف آئی آر انتظامیہ نے نامعلوم افراد کے نام سے درج کی۔جس پرتاج بی بی کے بھائی نے بھی اس ایف آئی آر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بہن کی موت سرکاری گولی چلنے ہوئی تھی۔ واضع رہے کہ ضلع کیچ میں آبسر کے علاقے آسکانی بازار میں سرکاری گولی سے بے گناہ خاتون تاج بی بی دم توڑگئی تھی۔ اندھا دھند فائرنگ سے تاج بی بی کاشوہر محمد موسیٰ بھی زخمی ہوگیا۔ دونوں میاں بیوی لکڑیاں کاٹنے قریبی جنگل میں گئے تھے۔ جہاں فورسز نے ان پر اندھادھند فائرنگ کرکے ایک کو قتل جبکہ دوسرے کو زخمی کردیا۔گزشتہ سال آبسر کے علاقے کولواہی بازار سے تعلق رکھنے والے حیات بلوچ کو ان کے ماں اور باپ کے آنکھوں کے سامنے قتل کردیا۔ حیات بلوچ کراچی یونیورسٹی کے طالب علم تھا۔ حیات بلوچ کے قتل کے خلاف سول سوسائٹی کی جانب سے ملک گیر احتجاج کیاگیا تھا۔
رواں ماہ ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں سی ٹی ڈی نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین ظریف رند کے گھر پر چھاپہ مارا اور فائرنگ کے نتیجے میں ایک کمسن بچہ رامز خلیل جاں بحق، ایک بچہ اور خاتون زخمی ہوگئے تھے۔جبکہ ان کے بھائی خلیل رند کو فورسز اپنے ساتھ لے گئے۔
تین دنوں تک لواحقین نے تربت کے شہید فدا بلوچ چوک پر دھرنا دیا، تاہم کوئی اعلیٰ حکومتی وفدنے ان کے مطالبات کے لیے رابطہ نہیں کیا۔ تو لواحقین نے میت کے ہمراہ بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ کے ریڈ زون میں پہنچ کر اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا دیا۔ صوبائی حکومت کی یقین دھانی کے بعد لواحقین نے کوئٹہ میں جاری دھرنے کو ختم کردیا۔ یقین دھانی کے باوجود بھی لواحقین آج بھی انصاف کے متلاشی ہیں۔
ہوشاب کے واقعہ پر ضلعی انتظامیہ کا موقف نے بے شمار سوالات اٹھائے۔ سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ بچوں کی موت سرکاری چیک پوسٹ کے قریب ہوئی۔ اور سرکاری مارٹر گولہ بچوں کے ہاتھ کیسے لگا؟۔سرکاری مارٹرگولہ خالی جگہ چھوڑنے والوں کو کون پکڑے گا؟۔ غفلت برتنے والے ذمہ داروں کو کون سزا دیگا؟۔
رواں سال ہوشاپ میں ایک کمسن بچہ مراد امیر کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ مراد امیر کے واقعہ کو دبانے کیلئے متاثرہ خاندان کو پیسوں اور دھمکیوں کے ذریعے خاموش رکھنے کی کوشش کی۔ متاثرہ خاندان کی ایک نہیں سنی گئی۔ اور ذمہ داروں کو کوئی سزا نہیں ملی۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ ہوشاپ میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے لکڑیاں چننے والے بچوں پر مارٹرگولے فائر کیے۔ جس کی زد میں آکربچے جاں بحق ہوگئے۔ آج رونما ہونیوالا یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا اور انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ ماضی کے ایسے واقعات میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے اس سے پہلے بھی حد سے تجاوز کرنے کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ جہاں ایک جانب چادر اور چار دیواری کی تسلسل کے ساتھ پامالی ہوتی رہی ہے۔ وہیں بیچ چوراہوں پربلاامتیاز لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ضلع کیچ میں ملک ناز اور کلثوم بی بی کو ان کے گھروں میں قتل کیاگیا۔ دو الگ الگ واقعات میں سرکاری حمایت یافتہ مسلح جتھے ملوث تھے۔ بلوچستان میں رونما ہونے والے ایسے واقعات اب معمول بن چکے ہیں۔ جہاں آئے روز معصوم عوام کو قتل کیا جارہا ہے۔ بلوچستان میں جاری ایسے واقعات کا معمول کی شکل اختیار کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ بلوچستان میں بلوچوں کی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ایسے واقعات کے پیچھے اداروں کی ایک پالیسی شامل ہے۔ اس پالیسی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ورنہ اس طرح کے واقعات مستقبل میں بھی ہونگے۔ یہ وہی پالیسی ہے۔ جو پرامن لوگوں کو پہاڑ کی جانب دھکیل دینے پر مجبور کردیتی ہیں۔ جس سے معاشرے میں بغاوت کے رجحانات میں اضافہ ہوگا۔ ایسی پالیسیاں ہر شہری کو بغاوت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ پرامن شہری باغی بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ان بچوں کا قصور صرف اتناتھا کہ وہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے لکڑیاں چننے گئے تھے۔ تاکہ وہ اپنے گھر کاچولہا جلاسکیں ۔ بلوچستان قدرتی دولت سے مالا مال ہوتے ہوئے بھی یہاں کے مظلوم عوام ان دولت سے محروم ہیں۔ صوبے میں غربت ایک اہم ایشو ہے۔ بلوچستان میں غربت کی وجوہات انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی، ناخواندگی، لاعلاجی اور بیروزگاری ہیں۔ پاکستان میں غربت کے لحاظ سے بلوچستان کا پہلا نمبر ہے، 71.1فیصدلوگ غربت کا شکار ہیں، مزید یہ کہ غربت کی شہروں کی نسبت دیہاتوں میں زیادہ خطرناک صورتحال ہے۔ یعنی85فیصد دیہاتی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ملک بھر کے 20غریب ترین اضلاع میں بلوچستان کے 16اضلاع شامل ہیں۔ عالمی اداروں کے حساب سے بلوچستان میں غربت کی بنیادی وجوہات کے حوالے سے جتنے بھی پیرامیٹرز ہیں۔ وہ شدید تنزلی کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر پینے کے صاف پانی کو لیجئے تو بلوچستان میں صرف 20فیصد لوگوں کو یہ سہولت میسر ہے۔ قحط سالی اور بے حس حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے دیہاتی آبادی کی شہروں کی طرف ہجرت ایک لازمی اور فطری امر ہے۔ بلوچستان کے صرف 25فیصددیہاتوں میں بجلی فراہم کی گئی ہے۔ جبکہ پاکستان کے دیگر دیہاتوں میں یہ تناسب تقریباً75فیصد ہے۔ اس کے علاوہ غربت کی دیگر وجوہات میں ریاستی جبر کے نتیجے میں بدامنی اور امن و امان بھی سرفہرست ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور
کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر