نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کاش وہ بھی مریم نواز ہوتی!||سارہ شمشاد

ابھی چند روز قبل کی ہی بات لے لیجئے کہ انہوں نےایک بار پھر الزام عائد کیا ہے کہ نوازشریف کو سازش کے تحت نکالا گیا۔ انہوں نے پنڈورا لیکس پر JIT، سپریم کورٹ کے بنچ اور نیب کے چیئرمین بارے بھی سوال اٹھایا۔ مریم نواز نے ایک مرتبہ پھر یہیں پر اکتفا نہ کیا بلکہ نوازشریف کو سازش کے تحت نکالنے کے علاوہ اداروں پر بھی الزام لگایا۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ وزیراعظم کی جانب سے گاہے بگاہے عوام کو یہ یقین دہانی کروانے کا سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے کہ وہ ملکی دولت لوٹنے واور اسے نقصان پہناچنے والوں کو کسی قسم کا کوئی ریلیف کبھی نہیں دیں گے اور نہ ہی اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی دبائو قبول کریں گے۔ تاہم جہاں تک این آر او نہ دینے کا تعلق ہے تو ہمارے پیارے وزیراعظم کو کوئی یہ جاکر سمجھائے کہ عدالت سے ایک سزا یافتہ شخص بیماری کا بہانہ بناکر بیرون ملک پرسکون زندگی گزاررہا ہے جبکہ اس کی سزا یافتہ بیٹی ایک طویل عرصے سے ضمانت پر ہے بجائے اس کے وہ قانون اور اداروں کی شکر گزار ہوتیں کہ انہیں خاتون ہونے کے ناطے ریلیف ملا مگر وہ تو آئے روز اداروں کو ایسے رگیدتی ہیں کہ جیسے تمام ادارے ان کے ماتحت ہیں یہی نہیں بلکہ اہم ترین اداروں کے سربراہوں کے نام لے کر جس بدترین تنقید کا نشانہ بنانا تو انہوں نے جیسے اپنا حق ہی سمجھ لیا ہے اسی لئے تو ان کے منہ میں جو آتا ہے بگڑی ہوئی شہزادی کی طرح ٹر ٹر کرکے بولتی ہی چلی جاتی ہے کیونکہ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وطن عزیز میں قانون موم کی چونکہ گڑیا ثابت ہوا ہے اور امیر اور غریب دونوں کے لئے قانون کے پیمانے مختلف تھے، ہیں اور رہیں گے اسی لئے ان کے نزدیک قانون نامی چڑیا کی کوئی وقعت نہیں حالانکہ اگر یہی کسی غریب کی بیٹی ہوتی تو اس کو پوری زندگی جیل میں گزارنا پڑتی اور ضمانت پر تو کیا کسی قسم کی کوئی رعایت تک نہ ملتی۔ اس تمام تر صورتحال کے بعد وزیراعظم عمران خان جب بھی این آر او نہیں دینے کی بات کرتے ہیں تو بے ساختہ ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ بھئی جب وہ تمام تر مراعات، دبدبہ اور لبرٹی کو انجوائے کررہی ہیں اور آزادانہ نہ صرف نقل و حمل کررہی ہیں بلکہ اپنے جاہ و جلال کے عین مطابق فول پروف سکیورٹی بھی رکھتی ہیں تو ایسے میں انہیں کسی قسم کی رعایت یا این آر او کی ضرورت رہ جاتی ہے؟ یہ درست ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی جانب سے لفاظی گولہ باری تواتر کے ساتھ جاری ہے لیکن عدالتوں میں نہ تو ثبوت مہیا کرنے پر توانائیاں صرف کی جارہی ہیں اور نہ ہی اداروں کو جو وہ بے جا تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں اس پر ان سے کوئی جواب طلب کرنے کی زحمت کی جاتی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ وہ اپنی اونچی آواز اور بدترین تنقید کے باعث اداروں کو دبائو میں لانے کی حکمت عملی میں کامیاب ہوگئی ہیں۔
مریم نواز کی جانب سے بدترین تنقید پر عوام میں شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ کہ کوئی اداروں پر کیسے بنا کسی ثبوت اور شواہد کے الزامات لگائے جاسکتے ہیں۔ ادارے کس بات پر خاموش ہیں اور ان کی زبانوں کو چپ کیوں لگ گئی ہے۔ پاکستان ایک آزاد ملک ہے جہاں اصولاً تو قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہیے تھا لیکن یہاں طبقاتی تقسیم کی طرح قانون بھی امیر اور غریب کے لئے مختلف ہے اسی لئے تو مریم بی بی جیسی امیر خاتون کے لئے قانون کی کیا حیثیت ہے۔ ایسے میں عوام وزیراعظم عمران خان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ تقسیم اگر وہ بھی ختم نہیں کرسکتے تو کم از کم بار بار اس قسم کے بڑے بڑے بیانات دے کر عوام کے زخموں پر نمک تو نہ چھڑکیں۔ ایک طرف ملزمہ مریم نواز کا پروٹوکول اور جاہ و جلال ہے جبکہ دوسری طرف 4روز قبل مالاکنڈ کی رہائشی شیبا گل نامی خاتون ہے جس نے بوڑھے باپ کے ساتھ پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے پی کے اور آئی جی کے پی کے سے قبضہ مافیا سے جان چھڑانے کی اپیل کی تھی اور قسمت دیکھئے کہ اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کرکے اس کی مستقل بنیادوں پر جان چھڑوادی گئی ہے۔ یہ نئے پاکستان میں دو علیحدہ علیحدہ قوانین ہونے کی تازہ مثال ہے کہ ایک معصوم نے تو اپنی جدی پشتی زمین سے حکمرانوں سے صرف قبضہ چھڑوانے کی ہی درخواست کی تھی لیکن حکام نے تو زندگی کے مسائل سے نجات دلوادی گئی جبکہ دوسری طرف مریم نواز ہیں جو نہ تو کسی قانون کو مانتی ہیں اور نہ ہی کسی ادارے کا احترام کرنا اپنی قومی ذمہ داری سمجھتی ہیں بلکہ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو کہ جب انہوں نے اداروں کو بدترین تنقید کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ ابھی چند روز قبل کی ہی بات لے لیجئے کہ انہوں نےایک بار پھر الزام عائد کیا ہے کہ نوازشریف کو سازش کے تحت نکالا گیا۔ انہوں نے پنڈورا لیکس پر JIT، سپریم کورٹ کے بنچ اور نیب کے چیئرمین بارے بھی سوال اٹھایا۔ مریم نواز نے ایک مرتبہ پھر یہیں پر اکتفا نہ کیا بلکہ نوازشریف کو سازش کے تحت نکالنے کے علاوہ اداروں پر بھی الزام لگایا۔ میں بحیثیت پاکستانی اپنے اداروں سے یہ پوچھنے کا پورا پورا حق رکھتی ہوں کہ اگر خدانخواستہ میں نے اداروں کو ایسے للکارا ہوتا تو کیا قانون حرکت میں نہ آتا، کیا حکومت اپنی رٹ کے لئے میرے خلاف کارروائی نہ کرتی تو پھر میرے لئے اور مریم کے لئے دو علیحدہ علیحدہ قوانین کیوں ، میرا مسئلہ مریم نواز نہیں اور نہ ہی ان پر بنائے جانے والے کیسز ہیں، اب وہ اپنے کیسز کو پولیٹیکل انجینئرنگ کہتی ہیں تو حکومت پر لازم ہے کہ اس بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے عدالتوں میں شاوہد پیش کرکے انہیں غلط ثابت کریں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری ریاست بھی امیر کے سامنے بے بس ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس سے دنیا بھر میں پاکستان بارے کیاامیج جائے گا۔ تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی پاسپورٹ 13درجے مزید تنزلی کا شکار ہوگیا ہے۔درحقیقت یہی تو ملک دشمن عناصر چاہتے ہیں کہ دنیا میں پاکستان کو بدنام کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کئے جائیں۔ سیاستدانوں کو چاہیے کہ حساس اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانا نہ صرف افسوسناک بلکہ قابل مذمت اور ملک سے دشمنی کے مترادف ہے۔مریم نے لیفٹیننٹ جنرل فیض کا جس طرح نام لے کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس پر حکومت کی صرف افسوس کرنا کوئی درست حکمت عملی نہیں کیونکہ اگر صرف مذمتی بیانات جاری کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری رکھا گیا تو یہ معاملہ کہیں بھی نہیں رکے گا۔ جنرل فیض حمید نے بطور آئی ایس آئی چیف بہترین کام کیا جبکہ افغانستان میں طالبان حکومت کے ٹیک اوور کے بعد موجودگی سے ملک دشمن طاقتوں بالخصوص بھارت کی تو چیخیں ہی نکل گئیں اور وہاں کے میڈیا میں تو صف ماتم کا سا ماحول برپا ہے کہ فیض حمید کے کور کمانڈر پشاور بننے کے بعد اگلے آرمی چیف بننے کے امکانات بھی خاصے بڑھ گئے ہیں اور بھارت کو ابھی اس خبر سے ہی سانپ سونگھ گیاہے کہ اگر جنرل فیض آرمی چیف بن گئے تو بھارت کیسے ان کی پیشہ ورانہ قابلیت کا مقابلہ کرپائے گا۔ بس اسی خیال نے بھارت کی نیندیں چرالی ہیں۔ اب سوچئے کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت جس جنرل کا نام سن کر ہی کانپ اٹھا ہے تو کیا یہ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا درحقیقت اعتراف نہیں۔ ایسے میں اگر ہمارے سیاستدان جرنیلوں کا نام لے کر انہیں تنقید کا نشانہ بنائیں گے تو اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ وہ درحقیقت کس کی خدمت کررہے ہیں۔ یوں بھی مسلم لیگ ن بالخصوص نواز شریف اورمریم بی بی کا بھارت کی طرف جھکائو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم مہنگائی کم کریں گے بس آپ نے گھبرانا نہیں کی طرح این آر او نہیں دوں گا، کی رٹ لگانا چھوڑ دیں کیونکہ آج تک نہ تو لوٹی ہوئی دولت واپس لائی گئی اور نہ شریف فیملی کے کیسز کا کوئی فیصلہ ہوا اسی لئے تو ہر گزرنے والے دن کے ساتھ یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے شریف فیملی کیسز صرف اور صرف سیاسی نوعیت کے ہی ہیں۔ ایک ایسے وقت پر جب FATF تحقیقاتی رپورٹ میں دنیا پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف مذموم مقاصد کے حصول کے لئے ہر حربے کو استعمال کررہاہے جبکہ ایس جے شنکر بھی اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ مودی حکومت نے یقینی بنایا ہے کہ پاکستان گرے لسٹ میں ہی رہے۔ تو ایسے میں جب پاکستان چہار تو خطرات میں گھرا ہوا ہے اس پر سیاستدان بھی پاکستان کو بدنام اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں تو بہتری کی امید کس سے کی جائے۔ تاہم وقت آگیاہے کہ اداروں کے خلاف بولنے والوں کے خلاف قانون فوری حرکت میں آئے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرکے انہیں دوسروں کے لئے عبرت کا نشانہ بنادیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو وطن عزیز اوراس کے اداروں کے خلاف گستاخی کرنے کی جرات بھی نہ ہوسکے۔
یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author