اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نمک کا جیون گھر (اقتباس) ||رفعت عباس

"پرتگالیوں کا خدا پہلی بار ہندوستان جا رہا تھا۔پادریوں کو پتہ تھا کہ اگر اُن کا خدا ہندوستان پہنچ گیا تو اُس کا چرچ بھی پہنچ جائے گا۔"

رفعت عباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمک کا جیون گھر
(اقتباس)
سرائیکی سے ترجمہ
منور اکاش
5537 سال لُونڑکی
1537 سال عیسوی
گڑگاڈا صبح لُونڑی سے اڑا اور کچھ ہی دیر میں کھنبھاٹ کی کھاڑی تک پہنچ گیا۔کھاڑی کے دہانے پر پرتگالی ڈیو کا قلعہ استوار کر چکے تھے،دن چڑھے توپیں چل رہی تھیں اور چرچ اور لائٹ ہاؤس کی تعمیر جاری تھی۔
سگرایا نے ڈِیو کے قلعہ کے سامنے سمندر کے ایک مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
ابھی چند روز پہلے یہاں پرتگالیوں نےگجرات کے بادشاہ قطب الدین بہادر شاہ کو مار کر سمندر میں پھینک دیا تھا۔اس حکمران نے دہلی کے مغل بادشاہ نصیر الدین ہمایوں کے حملوں کے پیشِ نظر پرتگالیوں سے دفاعی معاہدہ کیا لیکن پھر نامطمئین ہو کر نئے معاہدہ کا دبائو ڈالنے اپنے بحری دستے کے ساتھ قلعہ ڈِیو کے سامنے سمندر میں پہنچ گیا،پرتگالیوں نے اس عمل کو اپنے خلاف جنگ قرار دیا اور قطب الدین بہادر شاہ کو اس کی طائوس نما بحری کشتی میں مار کر سمندر میں اچھال دیا۔
سگرایا نےگڑگاڈے کے چوڑے کاٹھ پر چلتے ہوئے گفتگو جاری رکھی:
"پرتگالی جہاز ران واسکوڈے گاما اپنی بندر گاہ لزبن سے انتالیس سال پہلے ہندوستانی گودی کالی کٹ پر اترا، اور آج کئی جنوبی ساحلوں اور جزیروں پر ان کا قبضہ ہے۔یہاں ٹھٹھہ سے گوا تک پرتگالی کوٹھیوں میں سوداگر، ،ملاح،پادری ،سپاہی اور قُلی سب موجود ہیں۔”
دادرا نے سگرایا کی بات کو آگے بڑھایا:
"لزبن کی بندرگاہ پر سب سے زیادہ خوش پادری تھے۔وہ اپنے سفید لباس میں ساحل پر سب سے نمایاں تھے اور بحیرہ روم کی ہوائیں اُن کے چُغوں کو اُڑا رہی تھیں۔”
اس نے مزید کہا:
"پرتگالیوں کا خدا پہلی بار ہندوستان جا رہا تھا۔پادریوں کو پتہ تھا کہ اگر اُن کا خدا ہندوستان پہنچ گیا تو اُس کا چرچ بھی پہنچ جائے گا۔”
وہ ذرا سے توقف کے بعد پھر گویا ہوا:
"پرتگالیوں کے خدا نے لزبن سے کالی کٹ تک چھ ہزار میل کا سفر طے کیا۔”
لونڑی واسیوں نے ڈِیو کے قلعے سے آسمانی بلندی پکڑتے ہوئے سوچا:
"کیا پرتگالیوں کا خدا سوداگروں کی معیت میں خوش تھا؟کیا پرتگالیوں کا خدا اُن پہلے چار جہازوں کے ساتھ چلتے ہوئے راضی تھا جن میں دیگی لوہے اور پیتل سے ڈھلی توپیں چڑھ رہی تھیں؟کیا اُن کا خدا واسکوڈے گاما کے مزاج سے متفق تھا جو کبھی کسی کو دوسرا موقع فراہم نہیں کرتا تھا،جو ملاحوں کے ساتھ کرائے کے فوجی بھرتی کرتا اور شہروں کو آگ لگاتا تھا!؟”
چندر جایا نے اپنی زمانے بھر کی شعری پوتھیوں سے پرتگال کے ایک لافانی شاعر لوئس ڈی کامویس کی ایک پرت ڈھونڈ نکالی:
"یہ پرتگالی شاعر1524کو لزبن میں پیدا ہوا اور بحری دستے میں شامل ہو کر ہندوستان اور پرتگال کے مقبوضہ چینی مکائو تک پہنچا۔اگرچہ وہ واسکوڈے گاما کا مداح اور پرتگالی قبضہ گیری کا حصہ رہا،تاہم اس کا شاعرانہ سچ اس کے رزمیے "لیوسیڈ”کی چوتھی کتاب میں ابھرا جب ایک کردار’ریسٹیلو کا بوڑھا’ نے تجارتی جہازوں میں فوجی دستوں کی موجودگی پر اعتراض اٹھایا۔”
اس وقت گڑگاڈا لونڑی سے باہر کی دنیا کے مخمصوں سے گزر رہا تھا:
"یہ کون جیت گیا تھا؟پرتگالی سوداگر،ان کا خدا،ان کے فوجی دستے،یا پھر یہ تینوں ایک تھے!!!؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گڑگاڈا : دور دراز کے سفر کے لیے سرائیکی اساطیری گاڑی

رفعت عباس دی کتاب "ایں نارنگی اندر” پڑھن کیتے کلک کرو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایں نارنگی اندر پڑھن کیتے کلک کرو

%d bloggers like this: