سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اطلاعات کے مطابق حکومت نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات شروع کردیئے ہیں اور اس میں طالبان بھی کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔حکومت کے اس فیصلے پر دونوں طرح کی آراء پائی جاتی ہیں کہ ملک میں دیرپا امن کے قیام کے لئے ٹی ٹی پی کو امن کے دھارے میں لانے میں کوئی قباحت نہیں جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے سخت احتجاج دیکھنے میں آیا ہے اور وہ اسے سانحہ پشاور سمیت دیگر شہداء کے خون کا سودا قرار دے رہی ہے۔ بلاشبہ ریاست کے لئے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنا ایک مشکل ترین فیصلہ تھا لیکن اگر وطن عزیز کو درپیش تمام مسائل کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ بڑے نقصان سے بچنے کے لئے اگر چھوٹا یا کم نقصان ہوجائے تو یہ کوئی زیادہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ پاکستان کو سبق سکھانے کے لئے سخت پابندیاں لگانے کی تیاری کررہا ہے اور وہ بھی اس وقت جب وطن عزیز بدترین معاشی بحران کا شکار ہے ایسے میں امریکی پابندیاں غریب عوام پر کیا ستم ڈھائیں گی، کا اندازہ لگانا کوئی اس لئے زیادہ مشکل نہیں ہے کہ کورونا نے جہاں تمام تر حکومتی کارکردگی پر جھاڑو پھیردیا ہے وہیں عوام کی بھی چیخیں نکل گئی ہیں۔ اگرچہ امریکہ کی جانب سے پابندیوں کی دھمکی کی ایک بڑی وجہ سپر پاور کے سامنے ڈھیر ہونے سے انکار ہے تو اس پر پاکستان کے دوست ممالک بالخصوص چین اور روس کوامریکہ پر دبائو ڈالنا چاہیے اور پاکستان کے حق میں بھرپور احتجاج کرنا چاہیے۔
پاکستان نے افغان جنگ میں جس طرح امریکہ کا ساتھ دیا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن اس کے باوجود امریکہ پاکستان کی لازوال قربانیوں کو تسلیم کرنے کے لئے ہی تیار نہیں۔ 9/11کے بعد جنگ امریکہ اور افغانستان کے مابین تھی لیکن امریکہ چونکہ شروع سے ہی پراکسی وار کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اسی لئے تو اپنی جنگیں اپنے ممالک میں لڑنے کی بجائے دوسروں کے ہاں لڑی جاتی ہیں اور یوں امریکہ اپنے عوام کو جنگ سے متاثر نہیں ہونے دیتا۔ اگرچہ امریکی عوام کی جانب سے افغانستان میں اربوں، کھربوں کے یومیہ نقصان پر حکومت اور پنٹاگون دونوں کو بدترین تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود امریکی حکومت اپنا قبلہ درست کرنے کے لئے ہی تیار نہیں اور طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی کی طرح پاکستان کو پتھروں کے دور میں دھکیلنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے کا اصل ذمہ دار کون ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا کہ ماضی ہم سے بہت سی غلطیاں ہوئیں جن کا خمیازہ ہمیں آج بھی بھگتنا پڑرہا ہے۔کچھ ہمارے حکمرانوں کی غلطیاں تھیں کہ جنہوں نے چند ٹکے کی لالچ کی خاطر وطن عزیز کی سالمیت کا سودا کیا اور کچھ ہمارے اداروں کی کہ ان کے چند غلط فیصلوں کا خمیازہ پاکستان 2دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی بھگت رہا ہے مگر یہاں اس اہم ترین بات سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا کہ غلط فیصلوں کو سدھارنے کی آج بھی کوشش نہیں کی جارہی اسی لئے تو دو دہائیاں گزرنے کے باوجود وطن عزیز کی درست سمت کا تعین ہی نہیں کیا جاسکا ہے۔
اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ جنگیں ہمیشہ مذاکرات کی میز پر ہی منتج ہوتی ہیں اس لئے اگر ریاست نے ٹی ٹی پی کالعدم تنظیم سے مذاکرات کا مشکل فیصلہ کیا ہے تو اسے بے جا تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ ریاست ایسی کون سی پالیسی اپنائے تاکہ آئندہ ایسا نہ ہوسکے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ جانے والے تو واپس نہیں آسکتے لیکن ہم اپنے ان شہداء کی قربانیوں کو کسی صورت رائیگاں نہیں جانے دیں گے اس لئے ضروری ہے کہ ٹی ٹی پی کالعدم تنظیم کو امن کے دھارے میں شامل کرنے کے لئے ان سے مکمل طور پر ضمانت لی جائے کہ وہ آئندہ غیرقانونی اور غیرانسانی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہوںگے۔ اسلامی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں کہ کس طرح بدترین مخالفین کے لئے عام معافی کا اعلان کیا گیا۔ میرا دین مبین تو صلہ رحمی کا درس دیتا ہے، درگزر کرنا تو اس کا خاصا ہے اس لئے ضروری ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم اپنی شاندار روایات اور اوصاف حمیدہ کو کسی صورت نہ بھولیں تاکہ غیر مسلم ہمارے شاندار اخلاق سے متاثر ہوں اور اسلام کی طرف راغب ہوں۔
ادھر برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ اس وقت افواج پاکستان اور حکومت وقت کے درمیان تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ درحقیقت یہی وہ اصل بات ہے جو ملک دشمن طاقتوں کو کھٹک رہی ہے کہ تاریخ میں پہلے کبھی بھی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی ایسی ورکنگ ریلیشن شپ کبھی قائم نہیں ہوئی۔ ویسے اس کا زیادہ تر کریڈٹ فوج کو جاتا ہے جو حکومت کے پرفارم نہ کرنے پر دبائو کا شکار ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی عوام کی تکالیف اور مشکلات کا اچھی طرح سے ادراک ہے اور وہ حکومت سے بہترین عوامی مفاد میں فیصلوں کی توقع رکھتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب افغانستان کے حالات غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں تو ایسے میں خطے کو بھی کئی خطرات اور چیلنجز درپیش ہیں۔ افغانستان کے امن سے اس خطے کا امن جڑا ہوا ہے اور پاکستان چونکہ اس خطے کا اہم ترین پلیئر ہے اور اس نے قیام امن کے لئے لاتعداد قربانیاں بھی دی ہیں اس لئے کوئی بھی اس کی اہمیت کو کسی قیمت پر نظرانداز نہیں کرسکتا۔ خطے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر بھی یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان میں استحکام ہو اس میں سیاسی اور معاشی استحکام بھی شامل ہیں تبھی جاکر پاکستان مستقبل کے چیلنجز سے نبردآزما ہوپائے گا۔ ایک طرف افغانستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ افراتفری کا خطرہ بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف غذائی بحران کے باعث انسانی المیہ بھی جنم لینے کا خدشہ ہے اس لئے پاکستان کو ہر قدم انتہائی پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے اور اس کے لئے اگر بعض اوقات ناپسندیدہ فیصلے بھی ملکی مفاد میں کرنے پڑیں تو گریز نہیں کرنا چاہیے۔ تمام سیاسی جماعتیں اس اہم اور نازک موقع پر سیاست برائے سیاست سے اجتناب کریں۔ طالبان کو قبول کرنے کے حوالے سے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کرتے ہیں تو امریکہ ناراض ہوجاتا ہے اور اگر ایسا نہیں کرتے تو طالبان ناراض ہوجاتے ہیں یعنی پاکستان دونوں اطراف سے مشکل میں ہے اس لئے بہت ضروری ہے کہ اس اہم موقع پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ حکومت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے یا پھر ایک اے پی سی بلاکر معاملات کو دیکھے تاکہ کسی کو اس نازک موقع پر سیاست کا موقع نہ مل سکے۔ یقیناً اس سے دنیا کو بڑا واضح پیغام جائے گا کہ پاکستان اپنی سالمیت کے لئے کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ ان حالات میں جب طالبان کو قبول کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں تو اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ ماضی میں ہم انہی طالبان کو انڈین ایجنٹ قرار دیتے رہے ہیں اس لئے اب اگر پاکستان ان طالبان کو تسلیم کرتا ہے اور معافی کا اعلان کرتاہے تو اس سے دنیا بالخصوص عوام کو کیا پیغام جائے گا اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ماضی میں بلوچستان میں بھی باغیوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا جاتا رہا ہے لیکن وہ قومی دھارے میں شامل ہونے کا بھی یقین دلواتے ہیں۔ بلاشبہ تحریک طالبان پاکستان کو معاف کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں کیونکہ ان لوگوں کے غیرملکی انٹیلی جنس سے تعلقات کو بھی کسی طور مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں یہ لوگ پیسے لے کر ملک دشمن طاقتوں کے مذموم مقاصد کے لئے استعمال ہوتے رہے ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہر پہلو کو سوچے سمجھے اور پھر کوئی فیصلہ کرے۔ بہتر ہوگا کہ پارلیمنٹ میں یہ معاملہ لے جایا جائے اور پھر اس بارے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ جن لوگوں نے اپنے عزیز کھوئے ہیں ان کے لئے ٹی ٹی پی کو معاف کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اسی طرح ٹی ٹی پی کے چند ٹکوں کے عوض دوبارہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث نہ ہونے کی کیا گارنٹی ہوگی اور اس کا گارنٹر کون ہوگا، بارے بھی ضرور سوچنا چاہیے کیونکہ تحریک طالبان پاکستان کو معاف کرنے کے نتائج پاکستان کے لئے سنگین صورتحال بھی پیدا کرسکتے ہیںجس کے ہم کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتے۔ ایک ایسے موقع پر جب وزیراعظم عمران خان جو ہر وقت جمہوری اقدار کی بات کرتے ہیں، کیا ہی بہتر ہوتا کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دیتے جو ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرتی اور پھر ان کے سامنے اپنی شرائط پیش کرتی تبھی جاکر یہ معاملہ احسن طریقے سے حل ہوسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں پارلیمنٹ چونکہ ایک جزومعطل بن کر رہ گئی ہے اسی لئے تو پارلیمان کوحسب روایت ایک مرتبہ پھر بائی پاس کیا گیا ہے۔تاہم اب بھی دیر نہیں ہوئی، حکومت پارلیمانی کمیٹی قائم کرکے اس معاملے کو پارلیمنٹ کے سپرد کردے تبھی جاکر اس مشکل کام کو احسن انداز میں حل کیا جائے گا لیکن اس میں پاکستان کے مفاد کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے، یہی وقت کا تقاضا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ