سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے امریکی بل بارے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے اور بڑے امتحان ہوسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکی سینیٹ میں طالبان اور ان کے حامی ممالک پر پابندیوں کا بل پیش کیا گیاہے۔ ادھر افغانستان سے امریکی انخلا کے جائزے سے متعلق امریکی سینیٹ میں مجوزہ بل پر دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ قانون سازی میں پاکستان سے متعلق حوالے مکمل طور پر بلاجواز ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان 2001ء سے افغانستان سے متعلق امریکہ سے مکمل تعاون کرتا آرہا ہے۔ امریکی سینیٹ میں مجوزہ قانون سازی نقصان دہ ہے۔ یاد رہے کہ امریکی سینیٹ میں بل سے پاکستان سٹاک مارکیٹ نیچے اور ڈالرمزید اوپر پہنچ گیا ہے جس کے باعث آنے والے دنوں میں پاکستانی معیشت کے کریش ہونے کے امکانات خاصے بڑھ گئے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے غریب عوام کے لئے ہر دن، ہر گھنٹہ مہنگائی کی ایک نئی نوید لے کر آرہا ہے تو ایسے میں کس طرح عوام مشکل اور سخت ترین دنوں کا سامنا کرپائیں گے۔ خاص طور پر اس وقت جب پونے دو برس میں کورونا نے ان کی مت ہی مار کر رکھ دی ہے ایسے میں مزید مہنگائی کا بوجھ عوام پر کیا ستم ڈھائے گا، کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں لیکن المیہ در المیہ تو یہ ہے کہ حکمرانوں پر کانوں پر عوام کی دلدوز چیخیں بھی کوئی اثر نہیں کررہیں اسی لئے تو وہ عوام نامی مخلوق سے بے خبر ہوکر بس اپنی سیاست میں ہی مگن ہیں۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے کہ حکمران عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی کوئی خوشخبری سناتے مگر حکومت کے نزدیک تو تمام مسائل کا حل صرف اور صرف قیمتوں میں اضافہ ہی تو ہے اسی لئے تو گزشتہ رات ہی پٹرول کی قیمتوں میں مزید 5روپے اضافہ بلاسوچے سمجھے کردیا گیا کہ یہ صرف پانچ روپے کا اضافہ نہیں بلکہ اس کا اثر تمام ضروریات زندگی پر براہ راست پڑے گا اور مہنگائی کا ایک اور سیلاب آئے گا۔ بعض اطلاعات کے مطابق امریکہ نے پاکستان کو یس سر نہ کہنے پر سبق سکھانے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ اب پاکستان پر پابندیاں اور معاشی دبائو اس قدر بڑھایا جائے گاکہ اس کے لئے سنبھلنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ اسی طرف شیخ رشید نے بھی یہ کہہ کر اشارہ کیا ہے کہ پاکستان کو مشکل اور مزید امتحانات کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے جس پر 22کروڑ عوام میں تشویش کی لہر دوڑناایک فطری عمل ہے کہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے حوالے سے خود توانکاری ہے ہی مزید حالات کی خرابی کا کہہ کر درحقیقت یہ کہنا چاہ رہی ہے کہ ’’جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا‘‘۔
پاکستان کو آج جس مشکل کا سامنا ہے اس میں مہنگائی کا بے قابو جن سرفہرست ہے جو ایک طرف تو حکومتی کارکردگی پر جھاڑو پھیرتا جارہا ہے تو دوسری طرف عوام کو بھی اپنے پائوں تلے روند رہا ہے اور اس ساری صورتحال میں حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے اور وہ منافع خور مافیا کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ عالمی مارکیٹ میں اضافہ بتایا جارہا ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے لیکن حکومت یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ ان ممالک کے لوگوںاور پاکستانیوں کی آمدن میں زمین آسمان کا فرق ہے اسی لئے تو وہاں قیمتیں بڑھنا ایک معمول کی کارروائی اس لئے سمجھی جاتی ہے اور کوئی وہاںاس سے زیادہ متاثر نہیں ہوتا۔ ادھر وزیراعظم عمران خان نے قوم کو مزید صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی عارضی ہے گھبرانا نہیں، جلد کمی آئے گی۔ اب کوئی خان صاحب سے پوچھے کہ 3برسوں میں تو اپنا عوام سے کیا ہوا کوئی وعدہ وہ پورا کر نہیں سکے اور عوام کو پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا نجانے وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب کورونا نے سفید پوش طبقے کا بھرم قائم رکھنا بھی تقریباً ناممکن بنادیا ہے تو ایسے میں عوام کو صبر کی تلقین کا نجانے کیا مقصد ہے۔ ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے عوام کو گھی، آٹا، بجلی جیسی بنیادی اشیاء پر سبنڈی کی فراہمی ختم کرنے کے لئے دبائو ڈالا جارہا ہے اور حکومت جس کی اپنی تو کوئی معاشی سمت ہے ہی نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی پالیسی ہے، کیسے غریب کے مسائل کو حل کرے گی؟ 200 افراد پر مشتمل معاشی ٹیم کا دعویٰ کرنے والے خان صاحب ایک بھی اچھا وزیر خزانہ اب تک سامنے نہیں لاسکے جسے معاشی مسائل کے ساتھ عوام کی مجبوریوں کا بھی علم ہو۔ اس لئے اب خان صاحب کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ عوام سے مزید صبر اور گھبرانا نہیں کی نصیحت یا تلقین کرنے کی کسی طور بھی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ عوام انہیں اقتدار میں اپنے مسائل کے حل کے لئے لائے تھے لیکن انہوں نے مہنگائی کے ایسے ایسے لازوال ریکارڈ بنائے ہیں کہ عوام برملا یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ اس سے تو اچھا نوازشریف کا ہی دور تھا کہ جب ڈالر مصنوعی طور پر ہی سہی، کنٹرول میں تو تھا اور اب حکومت کے پاس چونکہ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے کوئی گیدڑسنگھی سرے سے موجود ہی نہیں ہے اسی لئے تو انہوں نے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر بے آسرا اور بے یارومددگار چھوڑدیا ہے اور اپنی تمام تر توانائیاں اپوزیشن کو لتاڑنے اور نشانہ بنانے پر ہی صرف کی ہوئی ہیں۔
یہاں اپوزیشن کا ذکر بھی کیا کریں کہ اسے تو اپنے مسائل سے ہی کوئی فرصت نہیں کہ وہ عوام کے مسائل پر کوئی احتجاج بھی کرے اسی لئے تو حکومت نے بھی دھڑلے سے مہنگائی کرنے پر اکتفا کیا ہوا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے آئندہ حکومت میں آنے سے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کو انکار کردیا ہے جس کی ایک بڑی وجہ بدترین معاشی بحران ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک کے قرضے دگنے اور مہنگائی کا اژدھا معیشت کو نگل گیا ہوگا اور پھر جو (ن) لیگ نے اپنے دور حکومت میں آنے والوں کے لئے بارودی سرنگیں بچھائی تھیں آج کی حکومت آنے والوں کیلئے ویسے ہی حالات چھوڑ کر جائے گی اسی لئے (ن) لیگ کو آئندہ الیکشن میں جیت کی کوئی خاص خواہش نہیں ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے بعد آنے والی حکومتوں سے عوام اس قدر بیزار اور عاجز آچکے ہوں گے کہ اسے دوتہائی اکثریت سے اقتدار میں لانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ اس اطلاع کو تقویت نوازشریف اور مریم نواز کے اداروں کو ایک مرتبہ پھر بدترین تنقید کا نشانہ بنانے سے ملتی ہے اس لئے حکومت بالخصوص عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ وہ یا تو اپنی حکومت کی کارکردگی بہتر بنائیں اور اگر عوام کو ڈلیور نہیں کرسکتے تو کسی دوسرے کو ملکی حالات بہتر کرنے کا موقع دیں یہی جمہوریت ہے۔ ایک وقت میں جب مہنگائی کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سازش بھی قرار دیا جارہا ہے اور اب تو امریکہ پاکستان کے خلاف کھل کر سامنے آگیا ہے اور پاکستان پر پابندیاں لگانے کی برملا بات کررہا ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایسا جارحانہ رویہ تو اس نے پہلے کبھی نہیں اپنایا تھا اس لئے پاکستان کو اپنا ہر قدم بڑی سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے کیونکہ افغانستان معاملے پر پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دینے والا امریکہ پاکستان کی اہمیت سے نہ صرف انکار کررہا ہے بلکہ اس حقیقت سے بھی نظریں چرارہا ہے کہ پاکستان نے 20سال اس جنگ میں اس کا کتنا ساتھ دیا اور بدلے میں اپنا کتنا بڑا نقصان کیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب پاکستان پر چہار سو خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں تو لازم ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی سلامتی کے لئے ایک نکتے پر متفق ہوں اور اس حقیقت کو جان لیں کہ اگر ملک رہے گا تو وہ یہاں سیاست کریں گے اور سیاست کرنے کے لئے عوام کا زندہ رہنا بھی بہت ضروری ہے اس لئے حکومت وقت پر لازم ہے کہ وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھے کیونکہ اب پچھلی حکومتوں کی بارودی سرنگیں پھیلانے سے معیشت اس نہج پر پہنچی، کہہ کر کام نہیں چلایا جاسکتا۔ اس لئے وزیراعظم عمران خان پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مشکل میں گھرے اپنے عوام کے لئے آسانیاں پیدا کریں کیونکہ جس طرح کے حالات پیدا کئے گئے ہیں ان میں عوام کے لئے رشتہ جسم و جاں برقرار رکھنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے اس سے قبل کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آکر سڑکوں پر آئیں اور حکومت کے لئے طبل جنگ بجائیں، حکومت عوام کی نبض پر فوری ہاتھ رکھے کیونکہ اگر اب بھی حکومت نے حسب روایت حالات کی سنگینی کا ادراک نہ کیا تو سڑکوں پر مشتعل عوام کو ملک دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لئے تیلی لگاکر استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر حالات خدانخواستہ اس طرف گئے تو کوئی بڑا المیہ یا حادثہ جنم لے سکتا ہے۔ قوموں کی سلامتی اور تقدیر کا فیصلہ ان کی معیشت کرتی ہے اور اگر معیشت ہی دیوالیہ ہوجائے تو اس ملک کو وہ ادارہ بھی نہیں بچاسکتا۔ وزیراعظم عمران خان کو حالات اس طرف جانے سے قبل عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں وگرنہ عالمی اسٹیبلشمنٹ تو پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکی دے ہی چکی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت اور عوام دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر عدم استحکام پھیلانے کی سازش کرنے والوں کوناکام بنائیں، یہی وقت کا تقاضا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر