نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پھرتے ہیں جیالے خوار…..||عامر حسینی

پاکستان میں اس وقت برسراقتدار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت افغان طالبان کا ہر طرح سے خیرمقدم کررہی ہے۔ وہ پاکستان میں اسلام کی عسکریت پسند اور جہادی تعبیر کے حامی حلقوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہے کہ وہ بھی پاکستان کو حقیقی اسلام پسند ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"میرے بیٹے میرے قتل کا بدلہ لینگے”
میر مرتضٰی بھٹو اور میر شاہنواز نے اس کا مطلب لیا جنرل ضیاء الحق اور اس کے حواریوں کے خلاف مسلح جدوجہد
بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو :
اس کا مطلب پر امن، عدم تشدد پہ مبنی بحالی جمہوریت کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرکے ضیاءالحقی ٹولے کو شکست فاش سے دوچار کرنا ہے
میر مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ جو کارکن شریک ہوئے اُن میں جو جنرل ضیاء الحق کے رجیم کے ہاتھوں مارے جانے سے بچ گئے تھے اُن کی اکثریت کا کہنا ہے کہ "الذوالفقار” کے پاس "گوریلا جنگ” کی نہ تو کوئی سائنسی منصوبہ بندی تھی اور نہ ہی اُن کے پاس اراکین کی گوریلا تربیت کا کوئی مناسب انتظام تھا –
غریب کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ کا ہدف دے کر بھیجا جاتا جبکہ ریکی سسٹم نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور جو آتا پکے ہوئے پھل کی طرح ضیاء الحق کے بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ جاتا
پکڑے جانے والے کارکنوں کے گھرانوں کی کفالت کا کوئی سسٹم وضع نہیں کیا گیا
پکڑے جانے والے غریب کارکنوں کی قانونی مدد کا کوئی سسٹم بھی وضع نہ ہوا
رزاق جھرنا کے مقدمے کی پیروی لاہور قلعہ میں تعینات انسپکڑ نغمہ نے اپنے منگیتر نفیر ملک ایڈوکیٹ سے کروائی جو اسی سال وکیل بنا تھا –
خواجہ آصف جاوید بٹ، راجہ انور، ارشد شیرازی، جمال ناصر تو میر مرتضٰی بھٹو کو پاکستان کی جیلوں میں قید ہونے والے اور پھانسی چڑھ جانے والے الذوالفقار کے کارکنوں کے اہل خانہ کے مصائب و مشکلات کا براہ راست ذمہ دار ٹھہراتے ہیں –
وہ کہتے ہیں کہ ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب سے اختلافات کے بعد میر مرتضٰی بھٹو نے اپنی تنظیم کی باقیات بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دی تھی اور اس کے بدترین نتائج برآمد ہوئے –
پی پی پی کی پاکستان اور پاکستان سے باہر قیادت کے لیے الذوالفقار ایک چیلنج سے کم نہیں تھی، وہ اس سے مکمل لا تعلقی پہ مجبور تھی اور اس کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ الذوالفقار کے اراکین کو آفیشلی قانونی امداد فراہم کرتی – کیونکہ گرفتار کارکن برملا الذوالفقار سے اپنے تعلق کا اعلان اور اعتراف کرتے تھے – اگر پی پی پی اُن کو اپنا کارکن کہتی تو پی پی پی ایک دہشت گرد تنظیم قرار پاجاتی
جیلوں میں بند الذوالفقار کے کارکنوں کو ایک کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے بدترین تشدد کے باوجود بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو یا پی پی پی کے کسی اور مرکزی یا صوبائی رہنماء کو الذوالفقار کا شریک کار قرار نہیں دیا اور جنرل ضیاء الحق غصے سے پاگل اور باؤلا ہوگیا تھا –
طارق بشیر چیمہ نے چوہدری ظہور اللہی کی مدد سے سرنڈر کیا لیکن اُس نے پیپلزپارٹی کے کسی لیڈر کو الذوالفقار کا سرغنہ نہیں بنایا –
شہید بے نظیر بھٹو سمیت پی پی پی کی قیادت نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں الذوالفقار سے وابستہ ہوجانے والے پی پی پی کے سیاسی کارکنوں اور شہید ہونے والے جیالوں کو اپنی جدوجہد کے نہ صرف شہید قرار دیا بلکہ شہید بے نظیر بھٹو نے اُن کی سیاسی حکمت عملی یا ایڈونچر پہ مکمل خاموشی اختیار کی –
یہ بات درست ہے کہ پی پی پی نے 85ء کے غیر جماعتی الیکشن کے بعد تنظیم اور نظریاتی کارکن کی طاقت کو الیکشن میں کامیابی کا اولین معیار سمجھنا بند کردیا تھا اور اُس کا انحصار 85ء کے بعد پورے ملک میں اسٹبلشمنٹ کی اشیر باد سے دولت، طاقت اپنی ذات میں جمع کرلینے والے سیاست دانوں پہ بڑھتا چلا گیا –
اور نظریاتی کارکنوں کی تنظیم کے اہم عہدوں پہ بھی جگہ سکڑتی چلی گئی –
پارٹی کے اندر انتخابات مذاق بننے لگے، جعلی ممبرشپ نے، دولت اور قیادت تک رسائی سے محرومی نے اور سب سے بڑھ کر پی پی پی کے جہانگیر بدر جیسے جیالوں کی طاقت اور پیسے والے سیاست دانوں کے ہاتھوں بک جانے کی وجہ سے اکثر تنظیموں پہ ضیاء الحق کی باقیات کا قبضہ ہوگیا –
یہ قبضہ آج بھی برقرار ہے – پنجاب ہو یا سندھ یا بلوچستان یا کے پی کے وہاں پہ سرمایہ دار، جاگیردار اشرافیہ اب تنظیم اور پارلیمانی سیاست میں فیصلہ کن اتھارٹی ہے –
مکافات عمل ہے کہ پارٹی جن سینئر جیالوں نے نوے کی دہائی میں عہدے اور ٹکٹ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو فروخت کیے تھے وہ آج خود بھی "خوار” ہیں –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author