رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں ایسا کم ہی ہوتا ہے اور مغرب میں تو شاید ہی ہوا ہو کہ ملک کے وزیر اعظم یا گورنر یا صدر نے بے جا اور ہر جگہ اپنے نام پر ادارے بنوائے ہوں۔ وہاں صرف ایسی صورت میں روایت ہے کہ کوئی صدر عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد کوئی لائبریری یا اسی طرح کا کوئی اور ادارہ قائم کرے تو وہ اس سے موسوم کر دیا جائے‘ مگر اس کے لیے سرمایہ سرکاری ذرائع سے نہیں آتا۔ وہ اپنا ذاتی اثرورسوخ استعمال کرتا ہے‘ عام لوگوں اور تجارتی و صنعتی کمپنیوں سے چندے کی درخواست کرتا ہے اور لائبریری قائم ہو جاتی ہے۔ امریکہ کی حد تک تو میرے سامنے کوئی ایسی مثال نہیں کہ کوئی صدر یا گورنر اپنے عہد میں سرکاری اخراجات سے کوئی ادارہ بنائے اور اسے اپنے نام سے موسوم کر دے۔ مرنے کے بعد بھی یاد رکھے جانے کی تمنا سب میں نہیں ہوتی۔ بس اپنا زندگی کا کام مکمل کیا اور یہاں سے سدھارگئے۔ بڑے بڑے فلاسفہ‘ شاعر‘ ادیب‘ موجد‘ کھلاڑی اورعظیم سیاست دانوں کو ان کی قوم اور دنیا ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ ان کی زندگی میں یا ان کے مرنے کے بعد ان کے نام پر ادارے بنائے جاتے ہیں‘ اور بڑی سرکاری عمارات ان کے نام سے موسوم کر دی جاتی ہیں۔ محمد علی دنیا کے عظیم باکسر تھے۔ کیسے وہ امریکہ کے ایک شہر کی گلیوں سے ابھرے اور پھر چھاتے ہی چلے گئے۔ ان کے پہلے پہلے مقابلے ہم نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں دیکھے۔ کمال کے انسان تھے۔ اپنے نظریے کے تحت ویت نام کی جنگ میں شرکت سے انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ سزا کے طور پر ان سے تمام اعزازات واپس لے لیے گئے۔ کوئی ملال نہ تھا‘ بلکہ اصرار کیا کہ یہ فضول کی جنگ ہے اور ان کے عقیدے یا نظریے کے مطابق انہیں اس میں لڑنے کے لیے نہیں جانا چاہیے۔ کئی برس کے بعد دوبارہ رنگ میں واپس آئے اور کئی اور مقابلے اپنے نام کیے۔ امریکہ میں انتہائی احترام سے اب انہیں یاد کیا جاتا ہے۔ باکسنگ میں نمائندگی عالمی سطح پر بھی کرتے رہے اور اپنے ملک کا نام روشن کیا۔ ان کے مرنے کے بعد ان کی آبائی ریاست کینٹکی نے لوئی ول (louisville) انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا نام تبدیل کر کے محمد علی لوئی ول انٹرنیشنل ایئرپورٹ رکھ دیا ہے۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو‘ چاہے وہ جس بھی میدان سے ہوں‘ فراموش نہیں کرتیں۔
اسی طرح انیس سو اٹھانوے میں صدر بل کلنٹن نے واشنگٹن میں نیشنل ایئرپورٹ کا نام تبدیل کر کے رونلڈ ریگن نیشنل ایئرپورٹ رکھ دیا تھا۔ یاد رہے کہ صدر ریگن ریپبلکن تھے اور بل کلنٹن ڈیموکریٹ۔ یہ ریگن کے عہدہ چھوڑنے کے دس سال بعد ہوا۔ جان وین ہالی ووڈ کے مشہور ایکٹر تھے۔ ان کو یاد رکھنے کے لیے اورنج کائونٹی کے ایئرپورٹ کو ان کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ روایت رہی ہے۔ ہر شہر میں بزرگوں اور پاکستان کے بانیوں کے نام پر عمارتیں ہیں‘ اور کیوں نہ ہوں؟ خوشی ہے کہ فیض احمد فیض‘ صوفی تبسم‘ احمد ندیم قاسمی اور میرے انتہائی محترم آغا شاہی صاحب کے نام سے سڑکیں ہیں‘ مگر میرے بس میں ہوتا تو ان کے نام کی تختیاں سڑکوں پہ نہیں تعلیمی اداروں پر لگاتا۔
ہماری اپنی اور دنیا کی اچھی روایات نے اس وقت دم توڑنا شروع کر دیا جب جمہوریت انتقام پہ اتر آئی۔ دھن دولت‘ اقتدار‘ عہدے‘ سرکاری زمینیں اور بڑے شہروں میں املاک اپنے خاندانوں اور گماشتوں میں بانٹنا شروع کر دی گئیں۔ قوم سے ایسا انتقام لیا گیا کہ انگریز راج کی سامراجی لوٹ کھسوٹ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ کاش کبھی ہمارے ہاں یا دنیا میں انصاف کے دروازے کھلیں تو کرپٹ حکمران جو صرف سیاست میں نہیں ہر شعبے میں موجود ہیں‘ انہیں اپنے کئے کی سزا ملے۔ آوازیں دنیا میں اب اٹھنا شروع ہو چکی ہیں کہ تیسری دنیا کے لٹیرے حکمرانوں کی دولت مغرب کے خزانوں میں کیسے پہنچتی ہے‘ اور اس دولت اور ان لٹیروں کو وہاں تحفظ کیوں مہیا ہے؟ کیا یہ تضاد نہیں کہ مغربی دنیا ایک طرف تو ہمارے جیسے ملکوں میں غربت‘ کرپشن‘ ناانصافی اور بدنظمی کا رونا روتی ہے‘ دوسری طرف ان مسائل کے ذمہ داروں کو لوٹی گئی دولت چھپانے کی کھلی اجازت دیتی ہے؟ مغربی امداد کا شور ہی شور‘ چند سکے‘ زیادہ نہیں‘ اس کے مقابلے میں ہمارے ملکوں سے ہر سال ایک اندازے کے مطابق ایک کھرب ڈالر کے قریب لوٹی گئی دولت ان کے خزانوں میں پناہ گزین ہوتی ہے۔ لائے دھن کے بارے میں قانون ہیں تو بہت ہی نرم‘ کبھی سختی آ جائے تو پانامہ ہے نا! ہزاروں کی تعداد میں طاقتور لوگوں نے وہاں دولت چھپائی ہوئی تھی‘ کئی جزائر میں‘ جو صرف ایسی دولت کو چھپانے کی کمائی پر گزارہ کرتے ہیں۔ معاشرہ اور فرد غیراخلاقی ہو جاتا ہے‘ گر جاتا ہے‘ پستیوں کی طرف لڑھکنا شروع ہو جاتا ہے‘ جہاں حق اور ناحق کمائی میں فرق نہ رہے۔
کرپشن اب کئی روپ میں ہمارے سامنے ہے‘ اور کون اس سے بچا ہوا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے سامنے جو فیڈرل گورنمنٹ ہائوسنگ سوسائٹی کا کیس پیش ہوا ہے‘ اس کے بعد آپ کو کوئی شک ہے کہ کیسے حکمران طبقات اس ملک اور عام آدمی کی زمینوں کو اپنے نام کر رہے ہیں۔ اس سے نیچے گرنے کے لیے ابھی کوئی درجہ رہ گیا ہے؟ اور یہ دیکھیں کس ڈھٹائی سے پنجاب کے سربراہ حکومت نے ڈیرہ غازی خان میں اربوں کے سرکاری وسائل سے تعمیر ہونے والا ہسپتال اپنے والدِ بزرگوار کے نام کر دیا۔ میرا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے‘ کبھی زندگی میں ان کا نام نہیں سنا تھا۔ یہ روایت ہمارے دو سیاسی خاندانوں کی تھی۔ اب تو لوگوں نے گننا بھی چھوڑ دیا ہے کہ ان کے نام پر کتنے ادارے ہیں۔ اب چھوٹی بات لگتی ہے۔ اتنا فہم و ادراک ہی نہیں کہ سرکاری دولت سے تعمیر شدہ ادارے اپنے نام سے خود موسوم نہیں کئے جا سکتے۔ مفادات کا ٹکرائو اور کیا ہوتا ہے؟ جی چاہتا ہے کہ کسی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائوں اور چترال سے کراچی تک سب ناموں کی تختیاں اتر جائیں۔ جن کو سزا ہو چکی‘ کرپشن کی داستانیں‘ مقدمات اور ثبوت بکھرے پڑے ہوں‘ ان کے نام پر جامعات کے نام‘ تعجب کی بات ہے۔ یہ صرف گئے گزرے کمزور معاشروں میں ہوتا ہے۔ کچھ لکھیں‘ بولیں‘ انصاف کے لیے تو نہ جانے ان کے کتنے انعام یافتہ برسات کے مینڈکوں کی طرح بڑبڑکرنا شروع کر دیتے ہیں۔
کچھ ارادہ پکا ہو رہا ہے کہ کم از کم کسی انصاف پسند وکیل سے مشورہ ضرور کروں گا۔ اخباروں میں یہ کالم نگار بس اپنے لیے ہے‘ اور کچھ بھی لکھ دیں‘ اہل اقتدار ایک نظر ڈال کر پھینک دیتے ہیں‘ دل میں یہ کہتے ہوئے: جو کرنا ہے‘ کر لو۔ ابھی ہار ماننے کو جی نہیں چاہتا‘ ورنہ جو دیکھ رہے ہیں‘ سن رہے ہیں‘ اور سب کے کرتوتوں کے بارے میں پڑھ رہے ہیں‘ امیدیں وقت گزرنے کے ساتھ کمزور تر ہوتی جا رہی ہیں۔ معاشرے اندر سے بنتے اور بگڑتے ہیں۔ بڑے اور زیادہ خطرناک عناصر اپنی ہی صفوں میں ہوتے ہیں۔ اب تو راہبری اور راہنمائی کا جھنڈا اٹھائے عوامی نعروں کی گونج میں میدان میں ہیں۔ جمہوریت کی سند حاصل کر لی جائے تو حکمران کی جائزیت سب کاموں کو آسان بنا دیتی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ