گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک زمانے یہ رواج تھا کہ جب دو دوست دوستی کرتے تو اسے پکی کرنے کے لیے اپنے پٹکے بمعنی پگڑی ایک دوسرے سے تبدیل کر لیتے اس طرح یہ دوستی لمبے عرصہ چلتی تھی۔ ان کی اولادیں بھی یہ دوستی نبھاتیں ۔
ہمارے گاٶں کے ہندو بھی مسلمانوں سے گہری دوستی رکھتے تھےاگرچہ پٹکے وٹے ان میں شاید رواج نہیں تھا ۔ پارٹیشن سے پہلے کا تو میں نہیں جانتا مگر پارٹیشن کے بعد جب میں چھ سات سال کا تھا تو تین ہندو ہمارا گاٶں دیکھنے آتے اور میرے باپ کے مہمان بنتے تھے۔کیونکہ وہ اسی گاٶں کے تھے۔ ان کے نام چیلارام۔بھولا رام اور چندربھان تھے ۔وہ دہلی گیتا کالونی رہتے تھے اور کافی خوشحال زندگی گزار رہےتھے۔ انکی ڈیرہ سے محبت کے خطوط بھی آتے تھے مگر پھر یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔
میں سوچتا ہوں جب ڈیرہ کے لوگ آپس میں بلا رنگ نسل قومیت و مذھب اتنی شانتی محبت اور امن سے رہتے تھے تو اب اس شھر میں ہم ایک اللہ۔ ایک رسول صلی اللہ وآلہ وسلم اورایک قران کے ماننے والے کیوں اتحاد محبت الفت احترام کی نئ داستانیں رقم نہیں کر سکتے؟ تاکہ شھر ترقی کی نئی منازل تیزی سے طے کرے۔ جتنے امن پسند شھر اور ملک دنیا میں ہیں تیزی سے ترقی کر رہے ہیں حالانکہ وہاں ہر نسل مزھب کے لوگ رہتے ہیں۔؎
جوت سے جوت جلاتے چلو ۔
پریم کی گنگا بہاتے چلو ۔
گلزار احمد
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ