حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رخصت ہوتی گرمیوں میں ’’ویڈیوز‘‘ نے گرما گرمی پیدا کردی ہے۔ درست، غلط، سازش، نجی زندگی میں مداخلت سمیت چند موقف اور بھی ہیں۔ ہمارے اصول بدل جاتے ہیں پسند و ناپسند کی بنیاد پر۔ شکر ہے کہ ہمزاد فقیر راحموں کا موقف اب بھی وہی ہے جو کنٹینر میں ہوئی شادی کے وقت تھا۔
گلالئی کے دعووں اور ریحام خان کی کتاب کے وقت۔ یا کسی کے اس دعویٰ پر کہ ریحام خان نے ایک پاکستانی میڈیا ہاوس کے مالک کو چند کروڑ میں ایک ویڈیو فروخت کی ہے۔
تھرڈ ورلڈ میں سب چلتا ہے چلتی کا نام گاڑی ہے۔ سازشوں کا انڈہ پراٹھا، ظہرانہ، عصرانہ اور عشائیہ کبھی کبھی ہائی ٹی جیسی مغربی نعمت۔ پاکستانیوں کے دامن میں اس کے سوا رکھا ہی کیا ہے۔
کفر کے فتووں اور سازشی تھیوریوں کے سوا۔
سچ یہ ہے کہ جتنی بدزبانی چار اور ان دنوں ہورہی ہے یعنی سنائی دے رہی ہے اس نے 1988ء سے اکتوبر 1999ء کے درمیان ہوئی بدزبانیوں کو مات دے دی ہے۔ سوشل میڈیا کی کسی سائٹ پر ایک چکر لگاکر دیکھئے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ ایسی ایسی گالیاں ایجاد کی ہیں پاکستانی مسلمانوں نے کہ گالی بھی شرم سار ہے کہاں پھنس گئی۔
ہمارا کوا سفید ہے باقیوں کا کالا۔ یقین کیجئے سفید کالا کوا لکھتے ہوئے مرحوم پیر پگارا بالکل یاد نہیں آئے جو ایک سندھی سیاستدان کے لئے کالا کوا کی پھبتی کسا کرتے تھے۔ مرحوم پیر پگارا کو خدا بخشے انہوں نے بات کہنے کے نئے طریقے ایجاد کئے تھے۔
جے یو آئی والے حافظ حسین احمد نے پیر پگارا کی نقل کرنے کی کوشش کی لیکن اصل اصل ہی ہوتا ہے صاحب اور نقل نقل ہی۔
گزشتہ روزایک دوست نے پوچھا، شاہ جی! یہ ویڈیوز کی بہار کیا الیکٹرانک ووٹنگ مشین والی بات منوانے کے لئے ہے؟ دیر تک ان کی سازشی تھیوری کا لطف لیا۔ پھر عرض کیا حضور ایسا کچھ نہیں انہوں نے شک بھری نگاہوں سے دیکھا۔ مجھے لگا وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ ان سے چھپارہا ہوں۔ چھپانے کو رکھا کیا ہے۔
حلیم عادل شیخ نے چار سال سے کچھ اوپر جو بات چھپائی اب عیاں ہو ہی گئی آخر۔ انہوں نے طاہرہ ارائیں المعروف طاہرہ منگی کو دعا بھٹو کا شناختی کارڈ بنواکر دیا۔ سندھی فلمیں دیکھنے والی نسل ابھی زندہ ہے اس کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی۔ طاہرہ ارائیں المعروف طاہرہ منگی عرف دعا بھٹو کو 2017ء کے وسط میں تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت سے ملواتے ہوئے حلیم عادل شیخ نے بتایا، یہ دعا بھٹو ہیں، محترمہ بینظیر بھٹو کی کزن۔ بس اس ایک تعارف نے مخصوص نشستوں کے لئے سندھ اسمبلی کی ٹکٹ دلوادی۔
اس جھوٹ کو گزشتہ روز شیخ نے ایک ٹیوٹ کرکے نبھایا لکھا، میں
"بھٹو خاندان کا داماد بن گیا ہوں”۔
اس داماد گیری سے ہمیں ایک سکینڈل باز اداکارہ یاد آگئیں انہوں نے برسوں لوگوں کو یہ کہا میرے ابا، اے سی تھے، ہم سید ہیں۔۔ پھر انہوں نے اپنے اصلی والد چودھری سرور کا سرور شاہ کے نام سے شناختی کارڈ بنوالیا۔
پنجابی فلموں کی ایک معروف بہنوں کی جوڑی میں سے ایک نے پچھلی صدی کی آٹھویں یا نویں دہائی میں یہ دعویٰ کردیا کہ ہمارے ابا تو ملتان کے مخدوم تھے۔
چالیس برس کی پہاڑی نما پنجابی فلموں کی ہیروئن کے اس دعوے کے بعد اس وقت زندہ بزرگ ملتانی مخدوموں کی بیگمات اپنے شوہروں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں وہ تو شکر ہے اداکارہ نے اپنے دعوے پر زیادہ زور نہیں دیا ورنہ ’’قدکاٹھ‘‘ والے مخدوموں کی مٹی بہت خراب ہونی تھی
جیسے دوسری اداکارہ نے سیدوں کی تھی۔
ویسے یہ برصغیر پاک و ہند کی مٹی بڑی زرخیز ہے یہاں ہر طرح کی فصل کاشت ہوجاتی ہے۔ لوگ بھی خوش رہتے ہیں ایسی فصلوں کی بہار سے۔
یہاں برسوں تو پودینے کے باغات والے قصے خوب چلے۔ 63برسوں کے سفر حیات میں ہم نے بہت ساری کہانیاں سنیں۔ کچھ کے کرداروں سے شناسائی بھی ہوئی رہی۔ کچھ سے برسوں تعلقات رہے۔
ہمارے ایک سکول فیلو ساری عمر رند بلوچ رہے لیکن 2008ء میں آصف علی زرداری صدر مملکت بنے تو انہوں نے وزیٹنگ کارڈ پر بلوچ کی جگہ زرداری لکھوالیا۔ انہی برسوں میں ایک دوست کی ہمشیرہ کی شادی میں بچپن کے دوست اکٹھے ہوئے تو اس نویں نکور زرداری کی سب نے کلاس لے لی۔
انہوں نے سب کی جلی کٹی سننے کے بعد بہت اطمینان سے صرف ایک بات کہی ’’یارو یہ بتاو میں بلوچگی سے باہر تو نہیں گیا نا؟‘‘
ارے چھوڑیئے صاحب! کیا قصے لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ آج کل ویڈیوز کی بہار ہے اور اس پر تبصروں کی برسات، ہر سو جل تھل کا منظر ہے۔ ویڈیوز کیوں بنائیں اور پھر ریلیز کی جاتی ہیں۔
دو دن سے استادان ویڈیوز سے یہی سوال دریافت کررہا ہوں، سب ہنس دیتے ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا باوا آدم کہلانے والے ہمارے ایک دانشور دوست بھی چکمہ دے کر نکل لئے۔
دانشور سے یاد آیا ان دنوں دانشوروں کا بھی سیلاب آیا ہوا ہے۔ ایسے ایسے نابغے دانشور اُگ آئے ہیں کہ بس دانش پناہ کی تلاش میں ہے۔
ویڈیوز کے اس موسم میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی سازشی تھیوری یہ ہے کہ سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر کی مبینہ ویڈیو (ن) لیگ نے خود جاری کی ہے۔
یہ چورن بانٹنے والے ایک دانشور سے پوچھا (ن) لیگ کو اس کا کیا فائدہ، زبیرعمر تو اس جماعت کے اہم آدمی ہیں؟ رسانی سے بولے، شاہ جی تم بڑے بھولے بندے ہو یہ شین اور میم کی لڑائی ہے۔
شین والوں نے میم گروپ کے اہم آدمی کی ویڈیو وائرل کردی۔
میرا جی چاہا کہ اس دانشور کو کاندھے پر بیٹھاکر کینال ویو پر دھمال ڈالو وہ تو اچھا ہوا کہ فقیر راحموں نے یاد دلایا شاہ جی چھ ماہ سے اسٹیک کے سہارے چل رہے ہو دو دن قبل گرنے سے کمر پر لگی چوٹ سے چلنا مشکل ہورہا ہے ورنہ شوق دھمال میں ہم کسی ہسپتال میں پڑے ہوتے۔
اچھا اس ویڈیو موسم کا ایک فائدہ ہوا ہے وہ یہ کہ اب لوگ بیڈ روم میں بھی موبائل نہیں لے جاتے۔
ہاں موبائل پر یاد آیا کہ ایک کہانی مارکیٹ میں آئی ہے وہ یہ کہ محمد زبیر عمر کا موبائل فون پچھلے دنوں شہباز شریف کے دورہ کراچی کے دوران چوری ہوگیا تھا۔
یہ کہانی شین میم کے اختلافات بتانے والے دانشور نے بالکل نہیں بتائی یہ کہانی تو سوشل میڈیا پر کوٹھے پھلانگ رہی ہے۔
معافی کیجئے گا باتوں باتوں میں کالم پورا ہوگیا، چلیں سیاسی باتیں اور دو خطوط پر بات اگلے کالم میں کرلیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر