عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین دفعہ کے وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر اور تصویر دکھانے پر پیمرا نے پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ نہ صرف پابندی کا نوٹس دیا گیا بلکہ کسی بھی ٹی وی چینل کو نواز شریف کی تقریر دکھانے کی کوشش میں جرمانے اور چینل کی بندش کی تنبیہ بھی کی گئی۔ کہا یہ گیا کہ ایک مفرور اور اشتہاری مجرم کی تقریر دکھائی جا سکتی ہے نہ تصویر۔ یہ سب جانتے ہیں کہ جن مقدمات میں نواز شریف کو ملزم ٹھہرایا گیا، ہر روز اس جھوٹ کی قلعی کھلتی جا رہی ہے، کرپشن کی جب ایک پائی بھی ثابت نہیں ہوئی تو ایک اقامے کی بنیاد پر نواز شریف کو تیسری دفعہ وزارت عظمی سے فارغ کر دیا گیا اور اس کے بعد میڈیا میں پابندی بھی عائد کر دی گئی۔
آج نواز شریف کو سزا دینے والے تاریخ کے متنازع ترین منصفین میں شمار ہو رہے ہیں، سزا کا فیصلہ بھی تاریخ کے گٹر میں پڑا سڑ رہا ہے۔ جن بنیادوں پر نواز شریف کو سزا دی گئی کیا وہ انصاف تھا، انتقام تھا، یا ہوس اقتدار تھی؟ اس سارے واقعے کی قلعی کھل جانے کے بعد بھی نواز شریف کی تقریر اور تصویر پر پابندی قائم ہے، تین دفعہ کا وزیر اعظم جس کو کروڑوں لوگوں نے ووٹ دیا، وہ کبھی یو ٹیوب پر خطاب کرتا ہے، کبھی ٹویٹر اور فیس بک کا پلیٹ فارم استعمال کرتا ہے، الیکٹرانک میڈیا، پابندی اور جرمانے کے خوف کے علاوہ نادیدہ کالز کے ڈر سے ایک سیکنڈ بھی نواز شریف کی تقریر دکھانے کا رسک نہیں لیتا۔
یہ نہیں کہ میڈیا میں اخلاقیات اچانک عود کر آ گئے ہیں، اس میڈیا پر کیا کچھ نہیں چل رہا، اس میڈیا پر اپوزیشن کے سیاست دانوں کی کردار کشی کی مکمل اجازت ہے، ان کے اہل خانہ کی توہین کے لیے زرخرید اینکر ہمہ وقت تیار ہیں، ان پر کرپشن اور چوری کے بے بنیاد الزامات لگانے کو بے ضمیر تجزیہ کار ہر گھڑی تیار کامران ہیں۔ یہی نہیں اس الیکٹرانک میڈیا پر احسان اللہ احسان کا انٹرویو چلا، مفرور ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے خطابات عالیہ ہمیں سنوائے گئے، طالبان کے افغانستان میں قابض ہونے کی ٹرانسمیشن لمحہ بہ لمحہ لائیو دکھائی گئی، ٹاک شوز میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ کاروں کی سیاست دانوں پر تنقید سنوائی گئی؛ مگر نواز شریف کو ایک اشتہاری قرار دے کر میڈیا پر ان کی آزادی اظہار کے تمام راستے مسدود کر دیے گئے۔ یہ تین دفعہ کے وزیر اعظم کی توہین ہے، کروڑوں لوگوں کے ووٹ کی توہین ہے، آزادی اظہار کی توہین ہے، بنیادی انسانی حقوق کی توہین ہے۔
اس فیصلے کے پیچھے خوف ہے ؛نواز شریف کا خوف، ووٹ کو عزت دینے کا خوف، پارلیمان کی بالادستی کا خوف، سول سپرمیسی کا خوف۔ تصویر اور تقریر یاد دہانی ہوتی ہے، فیصلہ کن لوگ جانتے ہیں کہ جب بھی نواز شریف کی تصویر لوگوں کو نظر آئے گی تو لوگوں کو نواز شریف کا جی ٹی روڈ کا سفر یاد آئے گا، لوگوں کو والہانہ استقبال کرتے عوام کے مناظر یاد آئیں گے، لوگوں کو ”مجھے کیوں نکالا“ کا شکوہ یاد آئے گا، لوگوں کو ”ووٹ کو عزت دو“ کا نغمہ یاد آئے گا، لوگوں کو وہ جج یاد آئیں گے جنھوں نے تاریخ کا یہ متنازع ترین فیصلہ دیا تھا، لوگوں کو سوشل میڈیا پران کا موجودہ حشر یاد آئے گا، لوگوں جیل میں نواز شریف کے دن یاد آئیں گے، لوگوں کو وہ وزیر اعظم یاد آئے گا جس کے دور میں قیمتیں کم تھیں اور معیشت ترقی کر رہی تھی، لوگوں کو اس زمانے میں معیشت پر ہونے والے مذموم سیمی نار یاد آئیں گے، لوگوں کو گوجرانوالہ کی تقریر یاد آئے گی، اس تقریر کے ایک ایک مقام پر جاں نثاروں کا ولولہ یاد آئے گا؛ ان سب یادوں سے بچانے کے لیے آئین کے مجرموں نے نواز شریف کی تقریر اور تصویر پر پابندی برقرار رکھی ہے۔ اس پابندی کے باوجود نواز شریف کے یوٹیوب پر خطاب کے چھوٹے چھوٹے کلپس لاکھوں کی تعداد میں شیئر ہو رہے ہیں۔
اگر میڈیا پر پابندی لگانے سے لیڈر لوگوں کے دلوں سے نکل پاتے تو آج بھٹو بھی نہ زندہ ہوتا، آج بے نظیر کی یاد بھی دلوں میں نہ دھڑکتی، آج نواز شریف کے متوالوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو رہا ہوتا۔ آئین شکن لوگوں کو کبھی اس بات کا اندازہ نہیں ہوا کہ میڈیا اہم ہوتا ہے مگر میڈیا سب کچھ نہیں ہوتا؛ ضیا الحق کے دور تاریک میں پیپلز پارٹی پر یہ پابندی تھی، بھٹو کا نام لینا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا، ایک دہائی سے زیادہ یہ تماشا کیا گیا، 1986 ء میں بے نظیر واپس آئیں تو بیس لاکھ لوگ استقبال کو موجود تھے، میڈیا پر پابندی کے پرخچے اڑ گئے تھے، وہ بھٹو آج بھی سندھ کے لوگوں کے دلوں میں دھڑکتا ہے اور اس ڈکٹیٹر کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے۔ آج نواز شریف کی تقریر اور تصویر پر پابندی ہے، آنے والے کل یہی میڈیا نواز شریف کے حق میں ترانے چلا کر اپنی حب الوطنی کا ثبوت پیش کرے گا، یہی میڈیا نواز شریف کے حق میں ٹرانس میشنز کرے گا کیوں کہ اس طرح کی پابندیوں سے قومیں اپنے لیڈروں کو بھولا نہیں کرتیں۔
یہ ذکر ان پارٹیوں اور لیڈروں کا ہے جن کی جڑیں عوام میں ہوتی ہیں۔ اس ملک میں ایسی بھی پارٹیاں ہیں جن کی سیاست صرف میڈیا کے زور پر ہوتی ہے، وہ اپنی بقا کے لیے صرف میڈیا کے مرہون منت ہوتے ہیں ؛ شیخ رشید کی نام نہاد عوامی پارٹی میڈیا کے زور پر زندہ ہے، ق لیگ میڈیا کے زور پر پنجاب میں حکومت کرتی رہی، تحریک انصاف کو دھرنے سے لے کر حکومت تک میڈیا ہی کا سہارا رہا ہے۔ ان لوگوں کو میڈیا ایک ہفتہ نہ دکھائے تو لوگ ان کو فراموش کر دیں، اس لیے کہ ان کی جڑیں عوام میں نہیں، ان کی ساری سرمایہ کاری، جدوجہد اور سوچ میڈیا تک محدود ہے، جس دن میڈیا ان پر سے ہاتھ اٹھاتا ہے یہ خس و خاشاک ہو جاتے ہیں۔
دوسری جانب نواز شریف پر میڈیا کی جتنی چاہے پابندیاں عائد ہو جائیں لوگ ان کو فراموش نہیں کریں گے، اس لیے کہ نواز شریف اب جس دلیرانہ مشن پر ہیں اگر وہ اس میں سرخرو ہو گئے تو یہ قیام پاکستان کے بعد اس ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا کارنامہ ہو گا، جس شخص کا آج نام بھی میڈیا پر لینا منع ہے لوگ بہادری کے اعتراف میں اپنے بچوں کے نام اس کے نام پر رکھیں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر