نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نور مقدم قتل کیس،انسانی حقوق کمیشن اور انصاف کے ادارے||محمد شعیب عادل

پاکستان میں عدل و انصاف کی صورتحال کا اندازہ اس عمومی تاثر سے لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کہتی ہے کہ وکیل کرنے کی بجائے جج ہی کیوں نہ کر لیا جائے۔ اس کیس میں بھی کچھ ایسا ہی نظر آرہا ہے۔ ظاہر جعفر کے والدین کے ایک وکیل ، اسد جمال ہیں۔

محمد شعیب عادل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کی تاریخ میں نور مقدم کے قتل کو ، ایک انتہائی بھیانک، بے رحمانہ اور بہیمانہ قتل قرار دیا گیاہے۔ اس کی تفاصیل پریس میں چھپ چکی ہیں ۔قاتل ظاہر جعفر ، جس نے اعتراف جرم کر لیا ہے اور اسلام آباد پولیس کی تفتیش کے مطابق اس کےوالدین بھی اس قتل میں برابر کے شریک ہیں۔اسلام آباد پولیس کا کردار بھی بہرحال مثالی ہے جس نے کسی بھی دباؤ میں آنے کی بجائے ایک مضبوط کیس بنایا ہے۔
ظاہر جعفر اور اس کے والدین پاکستان کی ایک بااثر فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور انھوں نے پاکستان کے نامور وکیل ہائر کیے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کیس پہلے نچلی عدالت میں چلے گا پھر ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ جائے گا اور سپریم کورٹ جاتے جاتے قاتل کو اچھا خاصا ریلیف ملنے کی توقع ہے۔
پاکستان میں عدل و انصاف کی صورتحال کا اندازہ اس عمومی تاثر سے لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کہتی ہے کہ وکیل کرنے کی بجائے جج ہی کیوں نہ کر لیا جائے۔ اس کیس میں بھی کچھ ایسا ہی نظر آرہا ہے۔ ظاہر جعفر کے والدین کے ایک وکیل ، اسد جمال ہیں۔
اسد جمال، لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج ،ضیا محمود مرزا کے داماد ہیں ۔ محمود مرزا کے بیٹے، شمس محمود مرزا ، جو کہ اسد جمال کے برادر نسبتی بھی ہیں اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے جج ہیں۔ اسد جمال کے ہم زلف ایک انتہائی اور قابل نامور وکیل سلمان اکرم راجا ہیں جنھیں لاہور کی وکلا برادری دوسرا عبدالحفیظ پیرزادہ کہتی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ کسی دن وہ بھی لاہور ہائی کورٹ کے جج بن جائیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اسد جمال کو بھی وکالت کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن سسر صاحب کے اصرار پر بینک کی ملازمت چھوڑ کر وکالت کا امتحان پاس کرکے اس میدان میں قدم رکھا تھا جہاں ترقی کے مواقع زیادہ ہیں۔
ضمناً عرض ہے کہ اسد جمال،جنید حفیظ کے وکیل رہےہیں۔ ان کواس کیس کے لڑنے کی ایک بھاری فیس ، امریکہ کی ایک جسٹس تنظیم اور فرینڈز آف جنید حفیظ ، نے بھجوائی تھی۔ امریکہ والوں کو دکھ اس بات کا ہے کہ اسدجمال ایک دن بھی ملتان نہیں گئے اور لاہور میں ہی بیٹھ کر کیس لڑتے رہے۔ اور مزید رقم کا تقاضا کرتے رہے تھے۔ امریکہ میں فرینڈز آف جنید حفیظ، اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ شاید انھوں نے کیس مزید خراب کردیا ہے۔
اسد جمال کی بیگم فرح ضیا ، ایک نامور صحافی ہیں اور اس وقت ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، پنجاب چپٹر کی سربراہ ہیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسانی حقوق کے کارکن عدالت کے باہر ملزم ظاہر جعفر اور اسکے والدین کو سخت سزا دینے کے لیے احتجاج کررہے ہوں اور عدالت میں ،انسانی حقوق کے رکھوالے کے خاوند، ظاہر جعفر کے والدین کوبے گناہ قرار دینے کے لیے دلائل دے رہے ہوں۔ اور دونوں میاں بیوی رات کے کھانے پر اپنے اپنے نوٹس شئیر کررہے ہوں۔
ظاہر جعفر کے والدین کو عدالت میں اپنے دفاع کا پورا حق ہے لیکن ایک ایسے شخص کی طرف سے ان کا وکیل بننا کہ جن کی بیگم ہیومن رائٹس پنجاب کی سربراہ ہوں اور مستقبل میں ہیومن رائٹس کمیشن کا سربراہ بننے کی بھی اہل ہوں کم ازکم ان کے خاوند کو یہ کیس نہیں لڑنا چاہیے۔اگر خاوند کیس لڑنے پر بضد ہیں تو اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ ان کی بیگم اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔ کم ازکم ہیومن رائٹس آف کمیشن کے سربراہ کو اس کانوٹس لینا چاہیے۔
عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن کی وفات کے بعد کمیشن تو ویسے ہی یتیم ہوچکا ہے اور پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ بہت سے اداروں کو “مشرف بہ اسلام “ کرتی جارہی ہے ۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق اب زیادہ تر فرینڈلی میچ ہی کھیلے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:

محمد شعیب عادل کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author